إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
سوائے اس رسول کے جسے اس نے غیب کا علم دینے کے لیے پسند کرلیا ہو۔ وہ اس کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے
[٢٤] علم غیب سے متعلق اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ یہ علم کسی کو نہیں بتاتا کہ قیامت کب آئے گی۔ ہاں غیب کی کچھ باتیں کسی رسول کو بتا بھی دیتا ہے اور یہ باتیں وہ ہوتی ہیں جن کا بتانا دین کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ قیامت ضرور آئے گی۔ ایک وقت آئے گا جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ یا یہ کہ قیامت صرف بدترین لوگوں پر قائم ہوگی یا یہ کہ روز محشر میں اللہ کا لوگوں سے حساب لینا اور جنت اور دوزخ کے حالات۔ یہ سب چیزیں غیب سے تعلق رکھتی ہیں جو اللہ نے وحی کے ذریعہ رسول کو بتادیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت تک پہنچا دیں۔ اس کا بھی ضابطہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ جبریل کے ذریعہ ایسی وحی بھیجتا ہے تو اس کے آگے پیچھے نگران اور محافظ بھی بھیجتا ہے تاکہ یہ وحی بحفاظت تمام و کمال اور بلا کسی آمیزش کے رسول تک پہنچ جائے۔