أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَىٰ وَجْهِهِ أَهْدَىٰ أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
سوچو کہ جو شخص اوندھے منہ چل رہا ہے وہ زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا جو سر اٹھائے سیدھا ہموار راستے پر چل رہا ہے وہ ہدایت پر ہے
[٢٥] یعنی کوئی شخص کامیابی اور مقصد کے حصول کی راہ اسی صورت میں طے کرسکتا ہے جب وہ سیدھے راستے پر چلے اور سیدھا ہو کر چلے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص کسی ناہموار اور ٹیڑھے میڑھے راستہ پر چلنا شروع کر دے اور وہ بھی منہ کے بل یا چوپایوں کی طرح منہ ڈالے ہوئے تو اس کے منزل مقصود تک پہنچنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ اس آیت میں یہ دراصل ایک موحد اور ایک مشرک کی مثال بیان کی گئی ہے۔ موحد کی راہ سیدھی اور صاف ہوتی ہے اور اس پر چلنے کے لئے اس کے پاس واضح ہدایات اور علم کی روشنی میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مشرک کی ایک نہیں کئی راہیں ہوتی ہیں اور وہ سب راہیں تاریکی اور ضلالت کی ہی ہوسکتی ہیں۔ پھر اس کے پاس علم کی روشنی کے بجائے محض اوہام و قیاسات ہوتے ہیں۔ محشر میں بھی دونوں کی چال میں ایسا ہی فرق ہوگا۔