يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا
اے نبی جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کے دنوں کو پوری طرح شمار کیا کرو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے، تم انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو۔ اور نہ وہ خود نکلیں اِلّا یہ کہ وہ کسی واضح برائی کی مرتکب ہوں، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں۔ جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا آپ نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ کوئی صورت پیدا کر دے
[١] عورتوں کی عدت کی کمی بیشی کی مختلف صورتیں :۔ طلاق اور عدت کے بہت سے احکام سورۃ بقرہ میں گزر چکے ہیں۔ اور کچھ سورۃ احزاب میں بھی مذکور ہیں۔ اور ان کی تکمیل سورۃ طلاق میں مذکور احکام سے ہوئی۔ لہٰذا سابقہ احکام پر بھی ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ چونکہ طلاق کی صورت میں عورتوں کی حالت مختلف اور ان کی عدت بھی مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذا پہلے عدت کی وضاحت کی جاتی ہے : ١۔ بیوہ غیرحاملہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ (٢: ٢٣٩) ٢۔ بیوہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ (٦٥: ٤) جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا۔ اس وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے تھے۔ وہ شخص کہنے لگا :’’ایک عورت کے ہاں اس کا خاوند مرنے کے چالیس دن بعد بچہ پیدا ہوا ؟ اس کی عدت کے بارے میں آپ کیا فتویٰ دیتے ہیں۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ’’وہ لمبی عدت (چار ماہ دس دن) پوری کرے‘‘ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : پھر اس آیت کا کیا مطلب ہوا کہ : ’’حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے‘‘ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’میں تو اپنے بھتیجے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہوں‘‘ آخر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کریب کو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لئے بھیجا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’سبیعہ اسلمیہ کا خاوند (سعد بن خولہ) اس وقت فوت ہوا جبکہ اس کی بیوی حاملہ تھی۔ خاوند کے چالیس دن بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اسے نکاح کے پیغام آنے لگے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکاح کی اجازت دے دی۔ ان پیغام دینے والوں میں سے ایک ابو السنابل بھی تھا‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٣۔ غیر مدخولہ عورت خواہ وہ بیوہ ہو یا مطلقہ اس کی کوئی عدت نہیں۔ (٣٢: ٤٩) ٤۔ بے حیض عورت، اسے خواہ ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو یعنی نابالغہ ہو یا بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے آنا بند ہوچکا ہو، کی عدت تین ماہ قمری ہے۔ (٦٥: ٤) یعنی اس صورت کی آیت نمبر ٤ ٥۔ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ (٦٥: ٤) یعنی اسی سورۃ کی آیت نمبر ٤ ٦۔ حیض والی غیر حاملہ کی عدت تین قروء ہے (٢: ٢٢٨) قرء کا معنی حیض بھی ہے اور حالت طہر بھی۔ احناف اس سے تین حیض مراد لیتے ہیں جبکہ شافعی اور مالکی تین طہر مراد لیتے ہیں۔ اس فرق کو درج ذیل مثال سے سمجھئے۔ طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اسے طہر کے شروع میں ہی بغیر مقاربت کے طلاق دے دی جائے اور پوری عدت گزر جانے دی جائے عدت کے بعد عورت بائن ہوجائے گی۔ اب فرض کیجئے ایک عورت ہندہ نامی کو ہر قمری مہینہ کے ابتدائی تین دن ماہواری آتی ہے۔ اس کے خاوند نے اسے حیض سے فراغت کے بعد ٤ محرم کو طلاق دے دی۔ اب احناف کے نزدیک اس کی عدت تین حیض پورے یعنی ٣ ربیع الثانی کی شام کو جب وہ حیض سے غسل کرے گی۔ اس کی عدت ختم ہوجائے گی۔ جبکہ شوافع اور موالک کے نزدیک تیسرا حیض شروع ہونے تک اس کے تین طہر پورے ہوچکے ہوں گے یعنی یکم ربیع الثانی کی صبح کو حیض شروع ہونے پر اس کی عدت ختم ہوجائے گی یعنی تین دن کا فرق پڑجائے گا۔ عدت کی اہمیت :۔ اس کے بعد اب ارشادربانی کی طرف آئیے۔ فرمایا : ’’عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے لیے طلاق دو‘‘ جس سے معلوم ہوا کہ عدت کا ٹھیک ٹھیک شمار نہایت اہم چیز ہے۔ لہٰذا اس کی طرف پوری پوری توجہ دیا کرو۔ اس کی اہمیت کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ عدت کا مقصد تحفظ نسب اور وراثت کے تنازعات کو ختم کرنا ہے۔ عدت کے اندر اندر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں۔ اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل تک ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جس عورت کو صحبت سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے اس پر کوئی عدت نہیں (٣٣: ٤٩) کیونکہ اس صورت میں نہ نسب کے اختلاط کا کوئی امکان ہے اور نہ وراثت کے تنازعہ کا۔ ٢۔ عدت کے دوران مطلقہ عورت اپنے خاوند کی بیوی ہی رہتی ہے۔ اور اس دوران خاوند کے حقوق کی نگہداشت کو ملحوظ رکھا گیا ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ ﴾ (۴۹:۳۳)یعنی خاوند کے ہاں عدت گزارنا مطلقہ عورت کی ذمہ داری ہے اور مرد کا یہ حق ہے کہ عورت اسی کے ہاں عدت گزارے اس دوران مرد اس سے صحبت کرنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ اور وہ عورت کی رضا مندی کے بغیر بھی اپنا یہ حق استعمال کرسکتا ہے۔ ٣۔ عدت کے دوران کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس عورت سے نکاح تو دور کی بات ہے منگنی کے لیے پیغام تک بھی دے سکے۔ اور اگر خاوند نے عورت کو اس حالت میں طلاق دی کہ وہ گھر پر موجود ہی نہ تھی یا اپنے میکے گئی ہوئی تھی یا اسے اس کے میکے پیغام بھیج دیا گیا تھا اور عورت عدت کے دوران نکاح کرلے تو وہ نکاح باطل ہوگا۔ [٢] عدت کا عرصہ خاوند کے ہاں گزارنے کا حکم اور مصلحت۔ خاوند کے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ عدت گزارنا غیر شرعی اور گناہ کا کام ہے :۔ ہمارے ہاں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں لڑائی ہوئی تو بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی یا خود میاں نے اسے میکے روانہ کردیا۔ بعد میں کسی وقت بیک وقت تین طلاق لکھ کر بھیج دیں۔ یا خاوند بیوی کو طلاق دے کر گھر سے نکال دیتا ہے یا بیوی خود ہی اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ ان سب صورتوں میں عورت کی عدت اس کے میکے میں ہی گزرتی ہے۔ یہ سب باتیں خلاف شرع اور گناہ کے کام ہیں۔ کیونکہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ عورت عدت اپنے طلاق دینے والے خاوند کے ہاں گزارے گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران سکنیٰ اور نفقہ کی ذمہ داری مرد کے سر پر ڈال دی ہے۔ اور بیوہ کے اخراجات کی ذمہ داری میت کے لواحقین پر جو ترکہ کے وراث ہوں گے۔ اور اس حکم میں کئی مصلحتیں ہیں۔ سب سے بڑی مصلحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ جس مرد اور عورت کے درمیان رشتہ ازدواج قائم ہوچکا ہے۔ اسے زوجین کو اپنی اپنی امکانی حد تک نبھانا ہی چاہئے۔ طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات کی بنا پر دی گئی ہے۔ جبکہ حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں۔ چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ''ان ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ''(ابوداؤد۔ کتاب الطلاق“ یعنی طلاق جائز اور حلال تو ہے مگر یہ اللہ کے ہاں سخت ناگوار چیز ہے۔ اب عورت اگر اپنے خاوند کے گھر میں رہے گی تو ان کے ملاپ، صلح صفائی، رضا مندی اور رجوع کی کئی صورتیں پیش آسکتی ہیں۔ جو عدت باہر گزارنے کی حالت میں ناممکن ہوجاتی ہیں۔ [٣] صریح برائی کے مختلف پہلو :۔ یعنی صریح برائی کی مرتکب ہوں تو انہیں گھر سے نکال دینے کی اجازت ہے۔ صریح برائی سے مراد زنا بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن میں زنا کے لئے یہ الفاظ متعدد مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ اور نشوز بھی یعنی عورت کا ہر بات میں ضد اور کھینچا تانی کا رویہ اختیار کرنا اور مرد کی رائے کی بہرحال مخالفت پر آمادہ رہنا یا بدزبانی کرنا اور کرتے رہنا یعنی ایسے حالات پیدا کردینے سے مصالحت کے بجائے مزید بگاڑ اور تناؤ کی فضا بن جائے۔ اور یہ بدزبانی یا کھینچا تانی مرد سے بھی ہوسکتی ہے اور اس کے قریبی رشتہ داروں مثلاً اس کے والدین وغیرہ سے بھی اور اس سے چوتھی مراد بذات خود ایسی عورتوں کا گھر سے نکل جانا بھی ہے۔ یعنی عدت کے دوران عورتوں کے از خود مرد کے گھر سے نکل جانے کو ہی ﴿فَاحِشَۃً مُّبَیِّنَۃً﴾ قرار دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں بھی انہیں واپس گھر لے جانے کی ضرورت نہیں۔ [٤] اللہ کی حدوں کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر غصہ آگیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ’’ابن عمر (رضی اللہ عنہما) کو حکم دو کہ رجوع کرلے اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے تاآنکہ وہ پاک ہو۔ پھر اسے حیض آئے۔ پھر وہ اس سے پاک ہو۔ پھر اگر طلاق ہی دینا چاہے تو دے دے لیکن طہر کی حالت میں دے اور اس دوران صحبت نہ کرے۔ یہ ہے وہ عدت جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اور ﴿طَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ﴾ سے یہی مراد ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) طلاق دینے کا صحیح اور مسنون طریقہ :۔ اس حدیث میں طلاق دینے کا اور عدت کو ٹھیک طور پر شمار کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور اس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں : ١۔ حالت حیض میں طلاق دینا اتنا گناہ کا کام اور اللہ کی حد یا قانون کی خلاف ورزی ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا۔ کیونکہ حیض کی حالت میں طلاق دینے سے تین قروء کا شمار درست طور پر نہیں سکتا خواہ قرء کو حیض کے معنی میں لیا جائے یا طہر کے معنی میں۔ طہر کے معنی میں لیا جائے تو طلاق کے بعد حیض کے بقایا ایام عدت سے زائد شمار ہوجاتے ہیں اور اگر حیض کے معنی میں لیا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ آیا اس حیض کو جس میں طلاق دی گئی ہے، شمار کیا جائے یا چھوڑ دیا جائے؟ جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ اللہ کے قانون کی خلاف ورزی ہی ہوگی۔ ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ’’اسے حکم دو کہ رجوع کر لے‘‘ سے معلوم ہوا کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا خلاف سنت اور گناہ کا کام ہے۔ تاہم قانونی لحاظ سے وہ ایک طلاق شمار ہوجائے گی ورنہ رجوع کرنے کا کچھ مطلب ہی نہیں نکلتا۔ اسی بات پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء کہتے ہیں کہ اگرچہ ایک ہی مجلس میں تین طلاق دیناخلاف سنت اور حرام ہے تاہم تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ قیاس کی حد تک تو ان کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس نص کی موجودگی میں کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، دورصدیقی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور فاروقی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دو سال تک ایک ہی مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔ (مسلم۔ کتاب الطلاق۔ باب طلاق الثلاث) اس قیاس کی چنداں وقعت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ نص کی موجودگی میں قیاس کرنا ناجائز ہے۔ ٤۔ طلاق طہر کی حالت میں دینا چاہیے جس میں صحبت نہ کی گئی ہو، اور بہتر صورت یہی ہے طہر کے ابتدا میں طلاق دی جائے۔ البتہ غیر مدخولہ عورت کو طہر اور حیض دونوں صورتوں میں طلاق دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اس سے نہ نسب کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور نہ وراثت کے۔ اسی طرح بے حیض عورت یا حاملہ عورت کو مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں عدت کا کوئی مقصد مجروح یا مشکوک نہیں ہوتا۔ ٥۔ طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس طہر میں مرد طلاق دینا چاہے اس میں صحبت نہ کرے۔ پھر ایک ہی بار کی طلاق کو کافی سمجھے اور پوری عدت گزر جانے دے۔ اس طرح عورت پر طلاق بائن واقع ہوجائے گی اور اس کے دو فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ عدت کے آخری وقت تک مرد کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور دوسرا یہ کہ طلاق واقع ہوجانے کے بعد بھی اگر فریقین رضامند ہوں تو تجدید نکاح کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ طلاق کی تین قسمیں :۔ احناف کے ہاں طلاق کی تین اقسام ہیں۔ (١) احسن، (٢) حسن، (٣) بدعی (ہدایہ اولین۔ کتاب الطلاق۔ باب طلاق السنۃ) احسن تو یہی صورت ہے جو مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ اسے طلاق السنۃ بھی کہتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی طریق کو پسند فرماتے تھے اور طلاق حسن یہ ہے کہ ہر طہر میں مقاربت کیے بغیر ایک طلاق دے۔ یعنی ایک طہر میں پہلی، دوسرے طہر میں دوسری، اور تیسرے طہر میں تیسری۔ اس صورت میں تیسری طلاق دیتے ہی مرد کا حق رجوع ختم ہوجاتا ہے۔ جبکہ عدت ابھی باقی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں فریقین تجدید نکاح بھی نہیں کرسکتے۔ تاآنکہ عورت کسی دوسرے سے غیر مشروط نکاح کرے۔ پھر وہ نیا خاوند اپنی رضا مندی سے کسی وقت اسے طلاق دے دے یا مر جائے تو بعد میں عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔ اس طریقہ طلاق کو عموماً شرعی طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میری معلومات کی حد تک یہ طریقہ کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔ اس کا ماخذ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ رائے ہے جو مسند احمد ج ١ ص ٢٦٥ پر حدیث رکانہ کے آخر میں بایں الفاظ مذکور ہے۔ فکان ابن عباس یری انما الطلاق عندکل طھر یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ تین طلاقیں ایک ساتھ نہیں بلکہ ہر طہر میں الگ الگ ہونی چاہئیں۔ اور امام شافعی اس طرح کی طلاق کو بھی خلاف سنت کہتے ہیں۔ بدعی طلاق کی صورتیں :۔ اور بدعی طلاق یہ ہے کہ کوئی شخص (١) بیک وقت تین طلاق دے دے، (٢) ایک طہر میں ہی الگ الگ موقعہ پرتین طلاقیں دے دے، (٣) حالت حیض میں طلاق دے اور (٤) ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس سے صحبت کی ہو۔ ان میں جو فعل بھی کرے گا، گنہگار ہوگا۔ واضح رہے کہ بدعی طریقہ طلاق کو سب فقہاء حرام سمجھتے ہیں۔ [٥] غیر شرعی طلاق کے نقصانات :۔ یعنی جو شخص بھی ان قوانین کی پابندی نہیں کرے گا اس کا کچھ نہ کچھ نقصان اسے دنیا میں پہنچ کے رہے گا۔ صحیح طور پر سنت کے مطابق طلاق نہ دینے سے عدت کی گنتی میں اختلاف بھی پیدا ہوگا۔ اور مشکل بھی پھر نسب اور وراثت کے مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوں گے، حق رجوع کی عدت یا اس کا کچھ حصہ ساقط ہوجائے گا اور تجدید نکاح کی بھی بغیر تحلیل کے کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔ اس آیت سے بھی بعض علماء نے یہ دلیل لی ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے سے تین ہی واقع ہوجاتی ہیں۔ ورنہ اگر اسے ایک ہی رجعی طلاق شمار کیا جائے اور اس کا حق رجوع باقی رہنے دیا جائے تو اس کو کیا نقصان پہنچا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دلیل بھی بہرحال ایک قیاس ہے۔ اور نص کے مقابلہ میں قیاس کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی۔ بیک وقت تین طلاق دینا گناہ کبیرہ اور حرام ہے :۔ رہی اس کے نقصان کی بات تو کیا یہ تھوڑا نقصان ہے کہ وہ ایک حرام کام اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے اور اس بات پر سب فقہاء کا اتفاق ہے اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شخص نے بیک وقت تین طلاقیں دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر غصہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری موجودگی میں کتاب اللہ سے اس طرح کا تلاعب اور مذاق؟ یہاں تک کہ ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اسے قتل نہ کردوں‘‘ (نسائی۔ کتاب الطلاق۔ باب الطلاق الثلاث المجموعۃ ومافیہ من التغلیظ) علاوہ ازیں یہ انداز فکر ہی درست نہیں کہ جسے کسی گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر دنیا میں کوئی سزا نہ ملے یا اس کا کوئی نقصان نہ ہو وہ اپنے نفس پر کچھ ظلم نہیں کرتا۔ بلکہ اصل نقصان تو آخرت کا نقصان ہے۔