سورة التغابن - آیت 9

يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

وہ سب کو جمع کرنے کے دن اکٹھا کرے گا اور وہ ہار جیت کا دن ہوگا جو اللہ پر ایمان لایا اور نیک عمل کرتا رہا اللہ اس کے گناہ مٹا دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی یہ لوگ ہمیشہ ہمیش ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٧] تغابن کی لغوی تشریح اور مفہوم :۔ تغابن۔ غبن معروف لفظ ہے بمعنی چوری چھپے کسی دوسرے کا حق مار لینا، اور تغابن بمعنی چوری چھپے ایک دوسرے کے حقوق، خواہ ان کا تعلق مال و دولت سے ہو یا دوسرے حقوق سے' مارنے کی کوشش کرنا۔ لیکن دنیا میں جو تغابن ہوتا ہے اور ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ یہ حقیقی نہیں بلکہ اس کے نتائج اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ مثلاً زید نے بکر کا حق غصب کیا تو یہاں دنیا میں اس کی ظاہری صورت یہ ہے کہ زید فائدہ میں رہا اور بکر خسارے میں رہا۔ لیکن قیامت کے دن جب زید سے بکر کا غبن کیا ہوا حق زید کو واپس دلایا جائے گا تو بکر فائدے میں رہے گا اور زید خسارے میں رہے گا۔ گویا آخرت میں فائدے اور خسارے کے نتائج دنیا کے نتائج کے برعکس ہوں گے۔ اس لحاظ سے زید ہار گیا اور بکر جیت گیا۔ اس مطلب کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا : جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا! مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حقیقتاً مفلس وہ ہے کہ قیامت کے دن بہت سی نیکیاں لے کر آئے گا تو اس سے حق وصول کرنے والے اللہ کے دربار میں اپنے اپنے حق کا مطالبہ کرنے لگیں گے تو اس کی نیکیاں حقداروں کو دے دی جائیں گی حتیٰ کہ اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الظلم) اب انفرادیت سے آگے اجتماعیت کی طرف آئیے۔ ایک فریق وہ ہے جس نے مسلمانوں پر مظالم ڈھا کر ان کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ اور وہ سمجھتا یہ ہے کہ ہم ہی غالب اور کامیاب ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور قابلیتیں، وقت اور مال و دولت اس کام پر لگا رکھے ہیں کہ اسلام کو صفحہ ہستی سے نابود کردیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو ان ظالموں کے مظالم کی چکی میں پس رہا ہے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہی لوگ مغلوب و مقہور ہیں۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جب قیامت کو ان سب لوگوں کے اعمال کے نتائج سامنے آئیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ کون خسارے میں رہا اور کون فائدے میں اور کون ہارا اور کون جیتا ؟