سورة المنافقون - آیت 7

هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو تاکہ یہ منتشر ہوجائیں، حالانکہ اللہ ہی زمین و آسمانوں کے خزانوں کا مالک ہے۔ مگر منافق نہیں سمجھتے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢] ہجرت سے پہلے مدینہ میں عبداللہ بن ابی کی حیثیت :۔ آیت نمبر ٧ اور ٨ کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لئے ان کا تاریخی پس منظر سمجھنا ضروری ہے جو یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان کی آمد سے پہلے مدینہ کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج اسے اپنا بادشاہ تسلیم کرنے پر تیار ہوچکے تھے اور اس کے لیے سنہری تاج بھی تیار کرالیا گیا تھا۔ وہ خود قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا۔ اوس اور خزرج اپنی باہمی جنگوں سے بہت تنگ آئے ہوئے تھے اور غالباً عبداللہ بن ابی ہی وہ پہلا شخص تھا جس کی سربراہی کو دونوں قبائل نے تسلیم کرلیا تھا۔ اس کی رسم تاجپوشی ادا ہونے ہی والی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے اور جب تمام لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوگئے تو عبداللہ بن ابی کا سارا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا اور جو لوگ عبداللہ بن ابی کی بادشاہت کے دوران بڑے بڑے مناصب کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ عبداللہ بن ابی کے اور ان کے اسلام لانے کے بعد بھی وہ لوگ اس کے دمساز و ہمراز رہے۔ یہ لوگ بظاہر اسلام تو لے آئے مگر بادشاہت اور مناصب کے چھن جانے کی وجہ سے عداوت کی چنگاری ان کے دلوں میں برقرار رہی۔ عبداللہ بن ابی کے اسلام لانے کی وجوہ :۔ عبداللہ بن ابی کے ان حالات میں اسلام لانے کی مجبوریاں تین تھیں ایک یہ کہ بدر کی فتح نے عرب بھر میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی تھی۔ عبداللہ بن ابی بھی ایسے موقع شناس لوگوں میں سے تھا۔ جو چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مدینہ میں اگرچہ یہود و مشرکین بھی آباد تھے مگر بااثر مسلمان ہی تھے تیسرے یہ کہ عبداللہ بن ابی کا اپنا بیٹا، اس کا نام بھی عبداللہ ہی تھا، مسلمان ہوچکا تھا اور وہ سچا مسلمان تھا۔ اسلام لانے کے باوجود ان لوگوں کے دلوں میں عداوت کی چنگاری انہیں ہر موقع پر اسلام کے خلاف مشتعل کرتی رہی۔ جنگ بدر سے پیشتر مشرکین مکہ نے عبداللہ بن ابی کو ہی اپنا ساتھی سمجھ کر یہ پیغام بھیجا تھا کہ ’’تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے۔ واللہ! یا تو تم اس سے لڑائی کرو اور اسے نکال باہر کرو، ورنہ ہم پوری جمعیت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری عورتوں کی حرمت پامال کر ڈالیں گے‘‘ (ابوداؤد۔ کتاب الجہاد۔ باب خبر النضیر) یہ خط دراصل عبداللہ بن ابی کے دل کی آواز تھا۔ اس خط سے اسے بڑا سہارا مل گیا اور اس نے اپنے رفقاء کو اپنے پاس اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان حالات کی اطلاع ہوئی تو آپ اس کے ہاں خود تشریف لائے اور فرمایا کیا تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑو گے؟ عبداللہ کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اس کے اپنے بہت سے قریبی رشتہ دار مسلمان ہیں لہٰذا اس کی کامیابی ناممکن ہے لہٰذا وہ لہو کے گھونٹ پی کے رہ گیا اور اس کے ساتھی بھی بکھر گئے۔ جنگ بدر کے دوران یہود اور عبداللہ بن ابی کی پارٹی نے مسلمانوں کی شکست کی غلط سلط خبریں پھیلا کر مدینہ کی فضا کو خاصا سنسنی خیز بنا دیا تھا۔ پھر جب مسلمانوں کی شاندار فتح کی خبر آگئی۔ تو ان لوگوں کے قلب و جگر چھلنی ہوگئے۔ جنگ احد میں عین وقت پر جس طرح عبداللہ بن ابی نے غداری کی اس کا حال پہلے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٢١ کے حواشی میں گزر چکا ہے۔ اسلام لانے کے بعد عبداللہ بن ابی کا مسلمانوں سے منافقانہ رویہ :۔ جب یہود بنو قینقاع کو قید کرلیا گیا۔ تو عبداللہ بن ابی نے پرزور سفارش کرکے انہیں آزادی دلائی اور وہ جلا وطن کئے گئے۔ جنگ بنونضیر میں اس نے جس طرح یہودیوں کے حوصلے بڑھائے اس کا حال سورۃ حشر میں گزر چکا ہے اور جنگ احزاب میں منافقوں نے جس عدم تعاون کا مظاہرہ کیا اور جس طرح مسلمانوں کو ہی طعنے دینے شروع کئے تھے اس کا حال سورۃ احزاب میں گزر چکا ہے۔ گویا عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے اور اپنی منافقانہ سرگرمیاں دکھاتے تھے جن سے اسلام و مسلمانوں کو زک پہنچے۔ مسلمان مدینہ سے نکل جائیں یا ان کا اثر و رسوخ ختم ہوجائے تاکہ عبداللہ بن ابی کو اپنی کھوئی ہوئی بادشاہت پھر سے نصیب ہوجائے۔ غزوہ بنی مصطلق میں مہاجرین و انصار میں لڑائی اور عبداللہ بن ابی کا انصارکو بھڑکانا :۔ غزوہ بنی مصطلق جنگی لحاظ سے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ تاہم اس غزوہ میں دو واقعات ایسے پیش آئے۔ جنہوں نے اس غزوہ کو مشہور بنا دیا ہے۔ اور یہ دونوں واقعات منافقوں اور بالخصوص عبداللہ بن ابی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں واقعات نہیں بلکہ فتنے تھے۔ جنہیں برپا کرنے والا یہی عبداللہ تھا۔ ایک تو واقعہ افک ہے۔ جو واپسی کے دوران پیش آیا تھا اور اس کا تفصیلی ذکر سورۃ نور میں گزر چکا ہے۔ دوسرا واقعہ اسی مقام پر ہوا جہاں مسلمانوں نے اس مشرک قبیلے کو شکست دی تھی۔ اور شکست دینے کے بعد چند دن آرام کے لیے رک گئے تھے۔ وہاں ایک کنوئیں پر پانی لینے کے سلسلہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خادم جہجاہ بن قیس اور ایک انصاری کے درمیان کچھ تو تو، میں میں ہونے لگی۔ یہ واقعہ بخاری میں ان الفاظ میں مذکور ہے : سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ ہم ایک لڑائی پر گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مہاجر (جہجاہ بن قیس) نے ایک انصاری (سنان بن وبرہ جہنی) کو ایک لات جمائی (جو اس کے سرین پر لگی) انصاری نے فریاد کی : اے انصار! دوڑو۔ اور مہاجر نے فریاد کی : اے مہاجرین دوڑو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آوازیں سنیں تو وہاں پہنچ کر فرمایا : ’’یہ کیا دور جاہلیت کی سی باتیں کرنے لگے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے : ’’یارسول اللہ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کے لات ماری تھی‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایسی باتیں چھوڑ دو۔ یہ گندی باتیں ہیں‘‘ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب ماینھی من دعوۃ الجاھلیۃ۔ مسلم۔ کتاب البروالصلۃ۔ باب نصر الاخ ظالما او مظلوما) جب عبداللہ بن ابی نے یہ بات سنی تو (انصار سے) کہنے لگا : ’’یہ سب کچھ تمہارا ہی کیا دھرا ہے۔ اللہ کی قسم! جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو عزت والا سردار ذلت والے کو وہاں سے باہر نکال دے گا‘‘ جب یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو سیدنا عمررضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس منافق کی گردن اڑانے کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایسا نہ کرو۔ لوگ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگے ہیں‘‘ مہاجر لوگ جب ہجرت کرکے مدینہ آئے اس وقت تھوڑے سے تھے اور انصار بہت تھے۔ مگر بعد میں مہاجرین بھی بہت ہوگئے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) عبداللہ بن ابی کی بکواس اور بعد میں قسم اٹھا کر انکار کرنا :۔ سیدنا زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لڑائی (غزوہ تبوک) میں عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا : اے انصار! پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو لوگ (مہاجرین) ہیں ان کو خرچ کے لیے کچھ نہ دو۔ وہ خود ہی پیغمبر کو چھوڑ کر تتر بتر ہوجائیں گے۔ اور اگر ہم اس لڑائی سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت والا (یعنی وہ خود) ذلت والے (یعنی پیغمبر) کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ گفتگو اپنے چچا (سعد بن عبادہ) یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کی اور انہوں نے آپ کو یہ بات بتا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں کو بلوایا تو وہ قسمیں کھانے لگے کہ ہم نے ایسا نہیں کہا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا سمجھا اور اسے سچا سمجھا۔ مجھے اس بات کا اتنا دکھ ہوا جتنا کبھی کسی اور بات سے نہ ہوا تھا۔ میں گھر میں بیٹھ رہا۔ مجھے میرے چچا نے کہا : ارے تو نے یہ کیا کیا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جھوٹا سمجھا اور تجھ سے ناراض ہوئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ ﴿اِذَا جَاءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ ﴾ تا آخر۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا۔ سورۃ منافقون پڑھ کر سنائی اور فرمایا : ’’زید! تجھے اللہ نے سچا کیا‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے انصار کو خوب اشتعال دلایا۔ کہنے لگا کہ : ’’یہ مہاجر لوگ ہمارے علاقہ میں آکر ہمارے ہی حریف بن گئے ہیں۔ ان پر تو یہ مثال صادق آتی ہے کہ کتے کو پال کر موٹا تازہ کرو تاکہ وہ تمہیں ہی پھاڑ کھائے۔ بخدا مدینہ واپس جاکر ہم میں معزز ترین آدمی (یعنی عبداللہ بن ابی) وہاں کے ذلیل ترین آدمی (یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نکال باہر کرے گا۔‘‘ پھر کہنے لگا کہ یہ مصیبت تمہاری اپنی ہی پیدا کردہ ہے۔ تم نے انہیں اپنے شہر میں اتارا، اپنے اموال بانٹ دیئے اور یہ دلیر ہوگئے۔ اب بھی اس کا یہی علاج ہے کہ ان لوگوں کو دینا بند کردو۔ یہ خود ہی یہاں سے چلتے بنیں گے۔