سورة المجادلة - آیت 11

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادگی اختیار کیا کرو۔ اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا، اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو، تم میں سے جو لوگ ایمان والے ہیں اور جو علم والے ہیں اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢] آداب مجلس :۔ کسی مجلس یا اجتماع میں دو یا چند آدمیوں کا الگ ہو کر کانا پھوسی کرنا بھی آداب مجلس کے خلاف ہے۔ اسی نسبت سے اس آیت میں چند مزید آداب مجلس کا خیال رکھنے کا مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کوئی شخص دوسرے کو اٹھا کر وہاں خود نہ بیٹھے۔ نیز فرمایا کہ (جب جگہ تنگ ہو تو) کھل کر نہ بیٹھو اور آنے والوں کو جگہ دو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس) ٢۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو جمعہ کے دن اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے بلکہ یوں کہے کہ پھیل جاؤ۔ (مسلم۔ کتاب السلام۔ باب من اتٰی مجلسا فوجد فرجۃ فیجلس۔۔) ٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے کوئی شخص جب (کسی ضرورت کے لیے) اپنی جگہ سے اٹھے پھر واپس آئے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب السلام۔ باب اذاقام من مجلسہ ثم عاد الیہ فھواحق بہ) [١٣] یعنی اللہ تمہاری دل کی تنگیوں اور مادی تنگیوں کو دور کردے گا اور اپنی رحمت کے دروازے کشادہ کردے گا۔ [١٤] اس آیت، مذکورہ بالا احادیث اور بعض دیگر نصوص سے جو آداب مجلس مسلمانوں کو سکھائے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں :۔ ١۔ مجلس میں پہنچ کر اہل مجلس کو سلام کہا جائے۔ ٢۔ پھر جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ دوسروں کو تنگ نہ کرنا چاہیے۔ نہ اس بات میں اپنی ہتک محسوس کرنا چاہیے۔ ٣۔ اہل مجلس جب دیکھیں کہ جگہ تنگ ہو رہی ہے اور نئے آنے والوں کو جگہ نہیں مل رہی تو انہیں مجلس کا حلقہ وسیع کرلینا چاہیے۔ یا اگر جمعہ وغیرہ کا اجتماع ہو تو سکڑ کر اور سمٹ کر بیٹھ جانا چاہیے۔ تاکہ آنے والوں کے لیے جگہ بن جائے۔ ٤۔ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو کر بیٹھے یا جیسے خطبہ جمعہ میں اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ امام کے قریب ہو کر بیٹھیں۔ تو ایسی صورت میں کسی کے لئے، خواہ وہ عزت اور مرتبہ میں بڑا ہو، یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔ ٥۔ حفظ مراتب کا بھی ایک مقام ہے۔ اگر کوئی چھوٹا کسی بڑے کو آتے دیکھ کر از راہ تواضع اور آنے والے کا احترام کرتے ہوئے اپنی جگہ اس کے لیے چھوڑ کر خود پیچھے ہٹ جائے تو یہ چیز چھوٹے کی عزت اور درجات کی بلندی کا سبب بن جائے گی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اکثر ایسا ہوتا تھا۔ ٦۔ اگر کوئی شخص مثلاً خطبہ جمعہ میں وضو ٹوٹ جانے یا کسی اور وجہ سے اپنی جگہ سے اٹھ جاتا ہے اور وضو کرکے واپس آتا ہے تو کوئی دوسرا اس کی جگہ پر قبضہ نہ جمالے۔ بلکہ پہلا شخص ہی اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔ ٧۔ اگر میر مجلس' مجلس کو برخاست کرنے اور چلنے جانے کا حکم دے یا کسی ایک شخص کو کسی مصلحت کی بنا پر چلے جانے کو کہے تو اسے اس حکم میں نہ عار محسوس کرنی چاہیے اور نہ اسے اس کی تعمیل میں اپنی توہین یا ہتک محسوس کرنا چاہیے۔ ٨۔ اگر کھانا کھانے کی مجلس ہو تو کھانے سے فراغت کے بعد باتوں میں مشغول ہو کر میزبان کو پریشان اور تنگ نہ کرنا چاہیے بلکہ فراغت کے بعد جلد اجازت لے کر رخصت ہوجانا چاہیے۔ [١٥] مجالس میں نظم وضبط :۔ یہ نہ سمجھو کہ مجلس میں دوسروں کو جگہ دینے کی خاطر اگر تم میر مجلس سے کچھ دور جا بیٹھے تو تمہارا درجہ گرگیا یا اگر تمہیں اٹھ کر چلے جانے کے لیے کہا گیا تو اس میں تمہاری توہین ہوگئی۔ رفع درجات کا اصل مقصد ایمان اور علم ہے نہ یہ کہ کون میر مجلس کے قریب بیٹھا ہے اور کون اس سے دور ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ احکام یا آداب مجلس صرف دور نبوی کی مجالس سے ہی مختص نہیں بلکہ آج بھی ان پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ نظم و ضبط قائم رہے اور ہر ایک کو درجہ بدرجہ استفادہ کا موقع ملے۔ اسلام ابتری کے بجائے انتہائی نظم اور شائستگی سکھاتا ہے۔ پھر جب عام مجالس کے متعلق نظم و ضبط کے ایسے احکام ہیں تو میدان جہاد اور صفوف جنگ میں تو اس سے بڑھ کر نظم و ضبط اور امیر کی اطاعت ضروری ہوتی ہے۔