سورة الطور - آیت 32

أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلَامُهُم بِهَٰذَا ۚ أَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا ان کی عقلیں انہیں ایسی باتیں کرنے کے لیے کہتی ہیں؟ یا درحقیقت یہ سرکشی میں حد سے گزر چکے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٥] قریش مکہ کا حقیقت حال سے پوری طرح واقف ہونا :۔ آپ کی زندگی بھر کی پاکیزہ سیرت اور کردار ان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ لہٰذا وہ جو کچھ الزامات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگا رہے ہیں خود ان کی عقلیں ان چیزوں کو تسلیم کرنے سے ابا کرتی ہیں۔ چنانچہ سرداران قریش اپنی نجی محفلوں میں متعدد بار اس بات کا اعتراف کرچکے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ شاعر ہیں نہ کاہن ہیں، نہ جادوگر ہیں اور نہ دیوانہ ہیں۔ وہ دل سے یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے رسول اور قرآن واقعی اللہ کا کلام ہے لیکن اگر وہ اس بات کا اعتراف کرلیتے تو خود مرتے تھے۔ ان کی سرداریاں ختم ہوتی تھیں اور انہیں رسول کا تابع فرمان بن کر رہنا پڑتا تھا اور یہ باتیں انہیں کسی قیمت پر گوارا نہ تھیں۔ لہٰذا خوئے بدرا بہانہ بسیار، کے مصداق آپ پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کرتے اور ایسے غیر معقول القابات سے پکارتے تھے۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ انہوں نے کبھی کسی شاعر، کسی کاہن، کسی جادوگر یا کسی مجنوں کی اس طرح مخالفت نہیں کی۔ جس طرح آپ کی کر رہے ہیں؟ نہ کسی شاعر، کسی کاہن، کسی جادوگر یا مجنوں کا کلام سننے پر ایسی پابندی لگائی ہے جس طرح کی پابندی یہ قرآن سنانے، سننے اور بلند آواز سے پڑھنے پر لگا رہے ہیں؟ انہیں کسی شاعر، کسی کاہن، کسی جادوگر یا کسی مجنوں سے ایسا خطرہ کیوں لاحق نہیں ہوتا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں لاحق ہے؟ یہ سب باتیں اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ وہ دل سے یہ جان چکے ہیں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول اور قرآن اللہ کا کلام ہے۔ ان کی عقلیں صحیح حکم لگاتی ہیں لیکن ان کی سرکش طبیعتیں انہیں راہ حق کی طرف آنے میں مزاحم ہورہی ہیں۔