سورة الجاثية - آیت 17

وَآتَيْنَاهُم بَيِّنَاتٍ مِّنَ الْأَمْرِ ۖ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور دین کے بارے میں انہیں واضح ہدایات دیں پھر جو اختلاف ان کے درمیان رونما ہوا وہ ( ناواقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ) علم آجانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرتے تھے اللہ قیامت کے دن ان معاملات کا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے فیصلہ فرما دے گا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٢] یہاں امر سے مراد اقامت دین ہے۔ کہ اللہ کے دین کو دنیا میں قائم اور نافذ کرنے کے لیے انہیں تمام ہدایات دے دی گئی تھیں اور یہ ہدایت بالکل واضح تھیں۔ [٢٣] فرقہ بازی کی اصل وجوہ نفسانی خواہشات :۔ یعنی اختلافات یا تفرقہ بازی کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ کسی اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایات موجود نہیں ہوتیں اور معاملہ اختلافی بن جاتا ہے۔ بلکہ ان اختلافات اور تفرقہ بازی کی وجوہ کچھ اور ہی ہوتی ہیں۔ ان وجوہ کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مسلمانوں کے موجودہ فرقوں پر ہی نظر ڈال لیجئے۔ کتاب و سنت ایک ہی ہے۔ اور وہ سب فرقوں کے پاس موجود ہے اور ہر فرقہ کتاب و سنت سے ہی استدلال کرکے اپنے فرقہ کے مخصوص عقائد و اعمال کو برحق ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر کوئی تو کتاب اللہ کی غلط سلط تاویل کرکے اسے اپنے نظریہ کے مطابق بنا لیتا ہے۔ کوئی کتاب و سنت کو اپنے اماموں کے اقوال کے تحت رکھ کر ان سے وہی مفہوم اخذ کرتا ہے جو اس کے امام کے قول کے مطابق ہو۔ پھر اس میں اپنے اپنے ذاتی مفادات یعنی طلب مال اور جاہ کا حصول بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنا اپنا جھنڈا بلند رکھنے کی فکر ہوتی ہے۔ پھر فرقوں کی آپس میں باہمی کھینچا تانی اور ضدم ضدی سے ان میں اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہوتی جاتی ہے۔ پھر کچھ اختلافات مذہبی قسم کے ہوتے ہیں اور کچھ سیاسی قسم کے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کتاب و سنت ایک ہونے کے باوجود امت مسلمہ بیسیوں فرقوں میں بٹ گئی ہے۔ یہی حال بنی اسرائیل کا تھا۔ [٢٤] کوئی بھی تعصب چھوڑنا گوارا نہیں کرتا :۔ یہ فرقے اپنے اپنے مخصوص نظریات و عقائد میں اس قدر متشدد ہوجاتے ہیں اور اس قدر تعصب ان میں پیدا ہوجاتا ہے کہ ان کے لیے اختلاف کو ختم کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس دنیا میں تو وہ کبھی ان اختلافات کو چھوڑنا تو درکنار، یہ سننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے کہ ان کا فلاں عقیدہ یا فلاں مسئلہ کتاب وسنت کی رو سے غلط ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان پر خوب واضح کر دے گا کہ میں نے تو یہ حکم اس طرح دیا تھا اور تم نے اس حکم کے الفاظ کو غلط جامہ پہنچا کر اپنا الو سیدھا کرلیا تھا یا تمہارے اختلاف کی اصل وجہ دین کی اشاعت نہ تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی۔ پھر اس وقت وہ اللہ کے فیصلہ کے سامنے چوں و چرا تک نہ کرسکیں گے۔