مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ
جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا، اور جو برائی کرے گا وہ خود ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا، پھر سب کو جانا تو اپنے رب ہی کی طرف ہے
[٢٠] یعنی اگر کوئی شخص اچھا کام کرتا ہے تو اس سے اللہ کی نہ کوئی ضرورت پوری ہوتی ہے اور نہ اسے کچھ فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس کا فائدہ اچھا کام کرنے والے کی ذات ہی کو پہنچتا ہے اور وہ اس دنیا میں بھی پہنچتا ہے اور آخرت میں بھی پہنچے گا۔ یہ خطاب ربط مضمون کے لحاظ سے ان مسلمانوں سے ہے جو کفار مکہ کی سختیاں برداشت کر رہے تھے اور انہیں درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور برے کام کرنے والے یعنی اسلام کی راہ روکنے، مسلمانوں پر سختیاں کرنے اور مذاق اڑانے والے اللہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اس کا وبال انہیں پر پڑے گا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور آخرت میں جب تم سب کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں حاضر کرے گا تو تم سب لوگ ایک دوسرے کا انجام دیکھ لو گے۔