سورة الدخان - آیت 37

أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ بہتر ہیں یا تبع کی قوم اور اس سے پہلے لوگ ہم نے ان کو اسی بنا پر تباہ کیا کیونکہ وہ مجرم تھے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٧] قوم تبع کا ذکر :۔ تُبع شاہان یمن کا لقب ہے۔ جو حمیری قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جیسے ایران کے بادشاہوں کا لقب کسریٰ، روم کے بادشاہوں کا لقب قیصر اور حبشہ کے بادشاہوں کا لقب نجاشی تھا۔ تبع' قوم تبع کے جدامجد کا نام تھا۔ یہ بذات خود ایک ایماندار آدمی تھا اور اپنے وقت میں اس کا ڈنکا بجتا تھا۔ اس نے بہت سے علاقے بھی فتح کرلیے تھے۔ مگر اس کے بعد میں آنے والے لوگ کفر و شرک میں مبتلا ہوگئے اور اللہ سے سرکشی کی راہ اختیار کرلی تھی۔ ان بادشاہوں کا زمانہ ١١٥ ق م سے ٣٠٠ ء تک ہے۔ عرب میں صدیوں تک ان کی عظمت کے افسانے زبان زد خلائق رہے۔ [٢٨] کفار کے اعتراض کا پہلاجواب تاریخ سے متعلق :۔ پہلے کے لوگوں سے مراد قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم نیز نمرود، شداد اور فراعنہ مصر وغیرہ ہیں۔ اپنے اپنے دور میں ان سب قوموں کی عظمت کا ڈنکا بجتا تھا۔ اور یہ سب لوگ اللہ کے نافرمان اور آخرت کے منکر تھے اور یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جس قوم نے بھی آخرت کا انکار کیا وہ اخلاقی انحطاط فتنہ و فساد اور ظلم و جور میں مبتلا ہوگئی اور بالآخر اسے تباہ کردیا گیا۔ کفار مکہ سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ ان قوموں نے جب آخرت کا انکار کیا اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو ان کو ہلاک کر ڈالا گیا تھا۔ حالانکہ وہ تم سے ہر لحاظ سے بہتر تھے تو پھر تم کس کھیت کی مولی ہو کہ تم اپنے انجام سے بچ جاؤ گے۔ یہ گویا کفار مکہ کی اس کٹ حجتی ’’ کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے آباء واجداد کو لاکے دکھا دو‘‘ کا پہلا جواب ہے جو تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔