سورة فصلت - آیت 11

ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا، اس نے آسمان اور زمین سے فرمایا چاہو یا نہ چاہو ہر حال وجود میں آجاؤ، دونوں نے کہا ہم فرمانبردار ہو کر حاضر ہوگئے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩] زمین و آسمان کا ملا جلا ملغوبہ :۔ اس آیت میں ثم کا لفظ زمانی ترتیب کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ زمین و آسمان کی تخلیق کے ایک پہلو سے ہے۔ بالفاظ دیگر یہ زمین کی تخلیق کے بعد کا واقعہ نہیں ہے بلکہ پہلے کا ہے۔ جسے بعد میں بیان کیا گیا ہے اور اس کی واضح دلیل یہ آیت ہے۔﴿اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا ﴾یعنی زمین و آسمان پہلے ملے جلے اور گڈ مڈتھے؟ تو ہم نے انہیں جدا جدا بنا دیا۔ اور یہاں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اس وقت فضائے بسیط میں صرف دھواں ہی دھواں یا مرکب قسم کی گیسیں تھیں۔ یعنی کائنات کا ابتدائی ہیولیٰ بھی گیسوں کا مجموعہ تھا۔ اس گیس کے مجموعے سے ہی اللہ تعالیٰ نے زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے سب کچھ بنا دیئے۔ کائنات کے جس نقشہ کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ زمین فلاں مقام پر اور اتنی جسامت کی ہونی چاہئے۔ آسمان ایسے ہونا چاہئیں سورج فلاں مقام پر اور زمین سے اتنے فاصلہ پر اور اتنی جسامت کا ہونا چاہئے۔ ستارے اور کہکشائیں چاند اور ستارے ایسے اور ایسے ہونے چاہئیں۔ غرض اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق گیسوں کے اس ہیولیٰ سے یہ سب چیزیں بنتی چلی گئیں اور اس طرح کائنات کی تخلیق پر چھ یوم (ادوار) صرف ہوئے۔