سورة غافر - آیت 28

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا بول اٹھا کیا تم ایک شخص کو اس بناء پر قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس روشن دلائل لے کر آیا ہے، اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ پڑے گا۔ اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج سے تمہیں ڈراتا ہے۔ ان میں سے کچھ تمہیں بھگتنے پڑیں گے، اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور جھوٹا ہو

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٨] اپنے ایمان کو چھپانے والا مرد مومن کہتے ہیں کہ یہ شخص فرعون کا چچا زاد بھائی تھا۔ یا کوئی اور بھی ہو تو کم از کم فرعون کے درباریوں اور قریبی لوگوں میں سے تھا۔ اور وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکا تھا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام سے جب ایک قبطی مارا گیا تھا تو اسی شخص نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اطلاع دی تھی کہ تمہارے قتل کے منصوبے ہو رہے ہیں لہٰذا جلد از جلد یہاں سے بھاگ جاؤ۔ اس وقت اگرچہ موسیٰ علیہ السلام نبی نہیں تھے اور اس وقت آپ پر ایمان کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ تاہم وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے اخلاق و عادات سے متاثر تھا اور اسی لئے آپ کا ہمدرد بھی تھا اس جملہ سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ فرعون کی سختیوں کے باوجود سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت اندر ہی اندر پھیل گئی تھی۔ حتیٰ کہ فرعون کے ایوانوں تک پہنچ گئی تھی۔ اور دوسری یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی ایماندار شخص کافر معاشرہ کے دباؤ کی وجہ سے اپنے ایمان کو ظاہر نہ کرے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ [٣٩] فرعون اور مرد مومن کا مکالمہ :۔ جب فرعون نے بھرے دربار میں یہ بات کہی تو اس مرد مومن سے ضبط نہ ہوسکا اور فوراً بول اٹھا کہ جس شخص کو تم قتل کرنے کے درپے ہو آخر اس کا جرم کیا ہے۔ جس کی بنا پر تم اسے قتل کرتے ہو؟ کیا اس کا یہی جرم نہیں کہ وہ تمہیں پروردگار کی طرف بلاتا ہے۔ پھر اس کے پاس واضح دلائل موجود ہیں، جنہیں تم بھی جانتے ہو، کہ وہ اپنے قول میں سچا ہے۔ کیا یہ ایسا ہی جرم ہے کہ اسے مستوجب قتل قرار دیا جائے؟ [٤٠] اس مرد مومن نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کی دعوت کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے قول میں جھوٹا ہو۔ اس صورت میں تم اتنی فکر کیوں کرتے ہو؟ جھوٹ کے پاؤں کہاں ہوتے ہیں وہ جلد یا بدیر اپنی موت آپ ہی مرجائے گا۔ اور اگر وہ سچا ہوا اور تم نے اسے قتل کردیا تو پھر سمجھ لو کہ تمہاری خیر نہیں۔ پھر تو جس عذاب کی وہ تمہیں دھمکی دیتا ہے وہ لازماً تم پر نازل ہو کے رہے گا۔ لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے کہ تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے۔ [٤١] یہ جملہ جو اس مرد مومن نے بولا یہ جیسے سیدنا موسیٰ پر فٹ آتا تھا ایسے ہی فرعون پر آتا تھا۔ یعنی اگر موسیٰ علیہ السلام نعوذ باللہ جھوٹ سے کام لے رہے ہیں کہ اس کام میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ تم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہو تو یاد رکھو اللہ ایسے شخص کو کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا اور وہ سچا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جھوٹے تم ہو اور جھوٹا ہونے کے باوجود اس حد تک آگے بڑھے جارہے ہو کہ اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہارا بیڑا غرق ہو کے رہے گا۔ عقبہ بن ابی معیط کا آپ کا گلا گھونٹنا :۔ بالکل ایسا ہی ایک واقعہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش آیا۔ ایک بدبخت مشرک عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ اتفاق سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ موقعہ پر پہنچ گئے تو انہوں نے بھی اس موقعہ پر یہی آیت پڑھی تھی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا : ’’مجھے بتاؤ کہ مشرکین مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ جو تکلیف دی وہ کیا تھی؟‘‘ وہ کہنے لگے کہ : ’’ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آگے بڑھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھے کو پکڑا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں کپڑا ڈال کر مروڑا دیا اور اتنی زور سے گلا گھونٹا (جیسے مار ہی ڈالے گا) اتنے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگئے، انہوں نے عقبہ کا مونڈھا تھاما اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو پرے دھکیل دیا اور فرمایا : ’’کیا تم اس شخص کو صرف اس لئے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر)