سورة آل عمران - آیت 121

وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جب آپ صبح کے وقت اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کی مورچہ بندی کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ سننے‘ جاننے والا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٠]غزوہ احد کا پس منظر اورا سباب:۔ یہاں سے ایک نیا مضمون شروع ہو رہا ہے جو جنگ احد سے متعلق ہے۔ رمضان ٢ ھ میں غزوہ بدر میں قریش مکہ کو عبرت ناک شکست ہوئی تھی۔ ابو جہل کی موت کے بعد ابو سفیان نے قریش کی قیادت سنبھالی۔ اس نے جنگ بدر کا بدلہ لینے اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے حسب ذیل اقدامات کئے : ١۔ طے ہوا کہ اس تجارتی قافلہ کا سارا منافع جنگ کے اخراجات کے لیے دے دیا جائے جو جنگ بدر سے چند یوم پہلے بچ بچا کر نکل آیا تھا۔ اس سے ایک ہزار اونٹ اور پچاس ہزار دینار کی خطیر رقم جنگی اخراجات کے لیے جمع ہوگئی۔ ٢۔ رضا کارانہ خدمت کا دروازہ کھول دیا گیا اور تمام اسلام دشمن قبائل کو اس جنگ میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ اس طرح قریش کے حلیف قبیلے بھی اور مسلمانوں کے مخالف قبیلے بھی اس قریشی جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ ٣۔ دو شعلہ بیان شعراء کی خدمات حاصل کی گئیں، جو بدوی قبائل کو مسلمانوں کے خلاف انتقام پر بھڑکاتے تھے۔ ان ایام میں جنگی پروپیگنڈہ کا سب سے موثر ذریعہ یہی تھا۔ چنانچہ شوال ٣ ھ میں قریش کا یہ تین ہزار مسلح افراد کا لشکر جرار ابو سفیان کی سر کردگی میں احد کے میدان میں پہنچ گیا۔ اس موقع پر ابو سفیان نے ایک خطرناک جنگی چال چلی، وہ انصار سے مخاطب ہو کر کہنے لگا : آپ لوگوں سے ہماری کوئی لڑائی نہیں، آپ درمیان سے نکل جائیں تو بہتر ہے، ہم بھی آپ سے کوئی تعرض نہ کریں گے۔ لیکن انصار ابو سفیان کی اس چال کو سمجھ گئے اور اسے کھری کھری سنادیں۔ غزوہ احد سے متعلق مشورہ:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ یہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے یا باہر نکل کر کھلے میدان میں لڑی جائے۔ آپ کی ذاتی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے اور یہ پہلا موقع تھا کہ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین سے بھی رائے لی گئی جو حضور کی رائے سے موافق تھی۔ مگر پرجوش اور جوان مسلمان جنہیں بدر کی شرکت نصیب نہ ہوئی تھی اور شوق شہادت بے چین کر رہا تھا اس بات پر مصر ہوئے کہ باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے۔ تاکہ دشمن ہماری نسبت بزدلی اور کمزوری کا گمان نہ کرے۔ چنانچہ آپ گھر میں تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر نکلے۔ بعض لوگوں کو خیال آیا کہ ہم نے آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر آپ کا منشا نہ ہو تو یہیں تشریف رکھئے۔ آپ نے فرمایا : ایک پیغمبر کو یہ مناسب نہیں کہ وہ ہتھیار لگائے اور جنگ کئے بغیر اتار دے۔ عبداللہ بن ابی کا کردار :۔ جب آپ مدینہ سے باہر نکلے تو تقریباً ایک ہزار آدمی آپ کے ساتھ تھے مگر عبداللہ بن ابی تقریباً تین سو آدمیوں کو (جن میں بعض مسلمان بھی تھے) ساتھ لے کر راستہ سے یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ جب میرا مشورہ نہیں مانا گیا تو ہم کیوں لڑیں اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالیں۔ آخر آپ سات سو مجاہدین کا لشکر لے کر میدان جنگ میں پہنچ گئے۔ فوجی قاعدہ کے مطابق صفیں ترتیب دیں۔ ہر ایک دستہ کو اس کے مناسب ٹھکانے پر بٹھایا اور فرمایا جب تک میں نہ کہوں جنگ نہ شروع کی جائے۔