أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ
کیا انہوں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا جو انہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے، ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا آسمان کا ایک ٹکڑا ان پر گرا دیں درحقیقت اس دھمکی میں ہر اس بندے کے لیے جو ” اللہ“ کی طرف رجوع کرنے والا ہے ایک سبق ہے
[ ١٢] وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اور اس کائنات کا انتظام چلانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اور یہی زمین و آسمان انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی حدود سے وہ باہر نہیں جاسکتے۔ زمین کا مالک اللہ ہے وہ زمین کو حکم دے کر انھیں پکڑلے یا اندر جذب کرلے تو زمین کی مجال نہیں کہ وہ اللہ کے حکم سے سرتابی کرے۔ آسمان سے بھی وہ ان پر عذاب نازل کرسکتا ہے اور زمین کے نیچے سے بھی۔ پھر آخر یہ کس برتے پر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں۔ [ ١٣] نظام کائنات میں صرف ایک نشانی نہیں بے شمار نشانیاں ہیں۔ مگر یہ نشانیاں ہر ایک کے لئے نہیں بلکہ صرف اس شخص کے لئے ہیں جو عقل و انصاف اور سوچ سمجھ سے کام لے کر اس کائنات کے خالق کی طرف جھکتے اور رجوع ہوتے ہیں۔ وہ اس مربوط اور منظم نظام کائنات کو دیکھ کر فوراً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ کسی حکیم و خبیر ہستی کا قائم کردہ نظام ہے۔ اور چونکہ اللہ نے کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی لہٰذا یہ نظام ضرور ایک دن کسی اعلیٰ و اکمل نتیجہ پر پہنچنے والاہے۔ یہ انداز فکر انھیں اپنے خالق و مالک کی طرف سے مزید دیتا ہے۔ آگے اللہ اپنے ایک رجوع کرنے والے بندے حضرت داؤدعلیہ السلام اور ان پر اپنے انعامات کا ذکر فرما رہے ہیں۔