سورة سبأ - آیت 8

أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ شخص اللہ کے نام پر جھوٹ بولتا ہے یا پاگل ہوگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور پرلے درجے کے گمراہ ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ١٠] کفار مکہ کامسلمانوں سےتین باتوں میں عقائدکااختلاف :۔ کفار مکہ آپ کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے تھے۔ کیونکہ یہ بات ان کے زندگی بھر کے تجربہ کے خلاف تھی۔ لیکن وہ آپ کی دعوت کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں تین باتیں تھیں جو انھیں ناگوار تھیں یا جن پر وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ (١) وہ اس زمین و آسمان یا کائنات کے فنا ہونے کا یقین نہیں رکھتے تھے۔ بالفاظ دیگر وہ قیامت کے قائم ہونے کے قائل نہیں تھے۔ (٢) وہ بعث بعدالموت کے بھی قائل نہیں تھے۔ یعنی جب انسان مر کر مٹی میں مل کر مٹی بنا جائے تو اس کا دوبارہ جی اٹھنا ان کے خیال کے مطابق ناممکنات سے تھا۔ اور (٣) اسی کے نتیجہ میں وہ آخرت کے ثواب و عذاب کے بھی قائل تھے۔ لہٰذا وہ اپنی دنیوی زندگی میں احکام الٰہی کا پابند بن جانے کے بجائے آزاد رہنا ہی پسند کرتے تھے۔ جب بھی ان لوگوں نے مذاق اڑایا تو انھیں باتوں کا اور ان میں سے بھی پہلی دو باتیں تو وہ اکثر مختلف پرایوں میں دہراتے رہتے تھے۔ اس آیت میں ان کے سوال کا انداز تمسخر کا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس نبی کی یہ دعوت دو ہاتھوں سے خالی نہیں ہوسکتی۔ یا تو وہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے یا پھر اس کی عقل جواب دے گئی ہے۔ [ ١١]ولیدبن مغیرہ کےہاں مجلس مشاورت:۔ وہ خود بھی بھی اپنے ان دونوں احتمالات کو درست نہیں سمجھتے تھے اور سرداران قریش اپنی نجی گفتگو میں خود بھی ان احتمالات پر مطمئن نہ ہوسکے۔ نہ ایک دوسرے کو مطمئن کرسکے تھے۔ آپ کے صادق ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ جو شخص لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹ بول سکتا ہے؟ اور دیوانگی کی بات تو اور بھی زیادہ مہم تھی۔ یہی سرداران قریش جب ولید بن مغیرہ کے ہاں اکٹھے ہوئے تو زیربحث یہی موضوع تھا کہ ہم اس نبی کی دعوت کو کیسے روک سکتے ہیں اور لوگوں کو اس کے متعلق کیا کہہ سکتے ہیں تو ایک سردار نے یہ کہا تھا کہ ہم دوسروں سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دیوانہ ہے۔ تو ولید بن مغیرہ رئیس قریش نے کہا تھا: ’’اللہ کی قسم! وہ دیوانہ بھی نہیں، ہم نے دیوانوں کو دیکھا ہے اس کے اندر دیوانوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت ہے، نہ الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان جیسی بہکی بہکی باتیں ہیں‘‘ ولید بن مغیرہ کا یہ جواب بھی صرف سلبی انداز سے دیوانگی کی تردید تھا کیونکہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھی۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ آپ کے دوسرے لوگوں سے معاملات اور آپ کی بلندی کردار اور معقول دلائل گفتگو سے کوئی ناواقف آدمی ایک آپ کے عظیم انسان ہونے کا با اسانی اندازہ لگا سکتا تھا۔ دیوانگی کا تصور تو بڑی دور کی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کی تینوں باتوں میں سے بالخصوص تیسری بات کو انکار کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ روز آخرت کا انکار اس بنا پر نہیں کرتے کہ انھیں آخرت کے دلائل کی سمجھ نہیں آرہی یا نہیں آسکتی۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت کی باز پرس سے ڈرتے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ بس کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے بلی از خود غائب ہوجائے گی۔ انہوں نے خود ہی اپنی آنکھیں حقائق کو دیکھتے اور ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنے سے بند کر رکھی ہیں۔ اور اسی طریق کار سے مسلسل آگے بڑھتے جارہے ہیں۔