إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ
یقیناً اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا کہ کوئی مثال بیان کرے مچھر کی ہو یا اس سے حقیر تر چیز کی۔ ایمان والے تو اسے اپنے رب کی جانب سے حق سمجھتے ہیں اور کفار کہتے ہیں اللہ نے اس مثال کے ساتھ کیا چاہا ہے۔ اللہ اس کے ذریعہ سے زیادہ کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ ہدایت دیتا ہے اور نہیں گمراہ کرتا مگر نافرمانوں کو
[٣٣] مثال کے درست ہونے کی شرط :۔ کفار سے جب چیلنج کا کوئی جواب بن نہ پڑا تو انہوں نے کلام اللہ پر یہ اعتراض جڑ دیا کہ اللہ کو جو مالک الملک اور سب سے بڑا ہے، کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ اپنے کلام میں مکھی اور مکڑی جیسی حقیر چیزوں کی مثالیں بیان کرے اور (واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکھی کی مثال (٢٢؍٧٣) اور مکڑی کی مثال (٢٩: ٤١) کافروں کے معبودان باطل کی کمزوری کو واضح کرنے کے لیے دی تھی۔ اس آیت میں اسی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات میں کوئی باک نہیں کہ وہ مکھی اور مکڑی تو درکنار، مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر تر چیز کی مثال بیان کرے۔ کیونکہ اس کی مخلوق ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔ دیکھنا تو یہ چاہیے کہ آیا مثال اور مُمَثّل لہ، میں مطابقت پائی جاتی ہے؟ اگر مطابقت پائی جائے تو یہ مثال بالکل درست ہوگی۔ کفار کے معبود بھی تو حقیر چیزیں ہیں اور مکھی اور مکڑی بھی لہٰذا تمثیل درست ہوئی۔ مثال دینے والا خواہ بڑا یا چھوٹا اس سے کوئی بحث نہیں کی جاتی، اور کفار نے جو اعتراض کیا تھا۔ وہ بالکل خلاف عقل تھا جو حماقت اور عناد پر مبنی تھا۔ [٣٤] گمراہی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے؟ یعنی ایک ہی بات سے ہدایت پانے والوں کی تو ہدایت میں اضافہ ہوا اور ہٹ دھرموں اور فاسقوں کی گمراہی میں، اور گمراہی کی بات صرف بدکردار لوگوں کو ہی سوجھتی ہے۔ پھر اللہ بھی انہیں اسی طرف چلا دیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے فاسقوں کی گمراہی کی نسبت اپنی طرف کیوں کی؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان صرف سبب اختیار کرنے کا مکلف ہے اور جیسا وہ سبب اختیار کرے گا ویسی ہی اسے جزا یا سزا بھی ملے گی، رہے سبب کے مُسَبِّبَاتٌ یا نتائج تو وہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتے ہیں جو اکثر دفعہ حسب توقع ہی نکلتے ہیں اور کبھی توقع کے خلاف بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا ان مُسَببَات کی نسبت فاعل کی طرف بھی ہو سکتی ہے۔