سورة العنكبوت - آیت 6

وَمَن جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جو شخص کوشش کرتا ہے دراصل وہ اپنے ہی لیے کرتا ہے۔ یقینا اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦]جہادکےمختلف محاذاوراقسام:۔ جہاد بمعنی کسی انسان کی مقدور بھر کوشش جو اسلام کے نفاذ اور اس کی سربلندی کے لئے کی جائے۔ پھر اس جہاد کی اقسام بھی متعدد ہیں اور محاذ بھی متعدد ہیں۔ اقسام سے مراد مثلاً زبان سے جہاد ایک دوسرے کو سمجھانا اور تلقین کرنا یا تقریروں کے ذریعہ تبلیغ کرنا اور قلم سے جہاد یعنی اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات اور حملوں کا جواب لکھنا اور پھر اس کے بعد اجتماعی جہاد یا جہاد بالسیف یا قتال فی سبیل اللہ ہے۔ اور جہاد کا سب سے پہلا محاذ انسان کا اپنا نفس ہے۔ پھر اس کے بعد عزیزواقارب پھر اس کے بعد پورا معاشرہ ہے۔ اور آخری محاذ قتال فی سبیل اللہ یعنی ان کافروں سے جنگ کرنا ہے جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ہوں یا اسلام کو نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے ہوں۔ جہاد اگر نفس سے کیا جائے گا تو جہاد کرنے والے کی اپنی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہوگی اگر اجتماعی جہاد اپنے معاشرہ سے کیا جائے گا تو پورا معاشرہ بے حیائیوں سے اور ظلم و جور سے پاک ہوگا اور اگر جہاد بالسیف کیا جائے گا تو اس سے مسلمانوں کو سیاسی فائدے حاصل ہوں گے۔ جس قسم کا بھی جہاد کیا جائے گا، بالآخر اس کا فائدہ جہاد کرنے والے کی ذات کو ہی پہنچے گا۔ [ ٧] جہادکی توفیق دینابھی اللہ کی مہربانی ہے:۔ یعنی جہاد کرنے والا اگر جہاد نہ کرے تو اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا اور اگر جہاد کرتا ہے تو بھی اللہ کو اس کا کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اور اللہ کی بے نیازی کا تو یہ عالم ہے کہ اللہ فرماتے ہیں ’’اے میرے بندو! اگر تم تمام جن و انس سارے کے سارے اس شخص کی طرح بن جاؤ جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار ہے تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر بھی اضافہ نہیں ہوگا اور اے میرے بندو! اگر تم تمام جن و انس سارے کے سارے اس شخص کی طرح ہوجاؤ جو تم میں سے سب سے زیادہ میرا نافرمان اور بدکار ہے تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر بھی کمی واقع نہ ہوگا‘‘ (مسلم۔ کتاب البروالصلہ۔ باب تحریم الظلم) پھر یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص اسلام کی سربلندی کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو اسے ہرگز یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اللہ پر کچھ احسان کر رہا ہے بلکہ اسے اللہ کا ممنون احسان ہونا چاہئے اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے اسے جہاد کی توفیق بخشی جس میں ہر پہلو سے اس کا اپنا ہی بھلا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی سرکاری افسر ایک شخص کو اپنے ماتحت ملازم رکھ لیتا ہے تو ملازم کو اس افسر کا ممنون احسان ہونا چاہئے۔ چہ جائیکہ ملازم یہ کہنا شروع کردے کہ میں نے ملازم ہو کر افسر پر احسان کیا ہے۔