سورة القصص - آیت 76

إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یقیناً قارون موسیٰ کی قوم کا ایک فرد تھا پھر وہ اپنی قوم کے خلاف ہوگیا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی چابیاں ایک طاقت ور جماعت اٹھایا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا فخر نہ کرو۔ کیونکہ اللہ فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠١]قریشی مالداروں کےلیےقارون کی مثال:۔ قریش مکہ کا عذر یہ تھا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو عرب مشرک قبائل ان کے دشمن بن جائیں گے۔ نیز ان کا سیاسی اقتدار ہی ختم نہیں ہوگا بلکہ وہ معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے۔ اگرچہ یہ بات ان کے اسلام نہ لانے کا محض ایک بہانہ تھی۔ تاہم اس میں اتنی حقیقت ضرور تھی کہ قریش سرداروں میں سے اکثر بہت دولتمند اور رئیس تھے۔ ان میں کچھ سود خور بھی تھے اور بہت سے لوگ اپنا سرمایہ شراکت کی بنیاد پر تجارت کرنے والے قافلوں کے افراد کو بھی دیتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے لوٹ مار سے بھی محفوظ رہتے تھے۔ علاوہ ازیں مکہ تجارتی منڈی بھی بنا ہوا تھا۔ لہٰذا ان میں کئی کروڑ پتی سیٹھ موجود تھے۔ اور جہاں ماحول ہی سارا مادہ پرستانہ ہو اور کسی شخص کی بزرگی اور عزت کو محض دولت کے پیمانوں سے ماپا جاتا ہو۔ وہاں ایسے سیٹھ لوگوں کو جس قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ بالکل ایسی ہی صورت حال قارون کی تھی جو ان سے بڑا سیٹھ تھا۔ اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہاں قارون کی مثال بیان فرمائی ہے۔ قارون اور اس کےخصائل:۔ قارون صرف یہی نہیں کہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا تھا بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچازاد بھائی تھا۔ اللہ نے اسے بے پناہ دولت عطا کر رکھی تھی اور وہ پورے علاقے کا رئیس اعظم تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے زکوٰ ۃ کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس کی زکوٰ ۃ بھی کروڑوں کے حساب سے بنتی تھی۔ لہٰذا اس نے زکوٰ ۃ کی ادائیگی سے انکار کردیا۔ انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ جتنا زیادہ دولت مند بنتا جاتا ہے۔ اتنا ہی وہ ننانوے کے پھیر میں پڑجاتا ہے۔ اپنی تجوریوں سے کچھ نکالنے کے بجائے اس کا یہی جی چاہتا ہے کہ ان میں مزید کچھ ڈالا جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زکوٰ ۃ کی ادائیگی کے مطالبہ پر نہ صرف یہ کہ اس نے زکوٰ ۃ دینے سے انکار کیا بلکہ بنی اسرائیل سے نکل کر وہ مخالف پارٹی یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے مل گیا۔ آدمی مالدار بھی تھا اور ہوشیار بھی۔ لہٰذا فرعون کے دربار میں اس نے ممتاز مقام حاصل کرلیا اور فرعون اور ہامان کے بعد تیسرے نمبر پر اسی کا شمار ہونے لگا۔ جیسا کہ سورۃ مومن کی آیت نمبر ٢٣ اور ٢٤ میں مذکور ہے کہ : ’’ہم نے موسیٰ (علیہ السلام)کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیل کے ساتھ فرعون، ہامان اور قارون کی طرف بھیجا تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو ایک جادوگر ہے سخت جھوٹا‘‘ (٤٠: ٢٣، ٢٤) [١٠٢] یہ بھی انسان کی فطرت ہے کہ اگر اللہ اسے اپنے انعامات سے نوازے تو وہ اپنے آپ کو عام انسانوں سے کوئی بالاتر مخلوق سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی گفتگو، اس کے لباس، اس کی چال ڈھال، اس کے رنگ ڈھنگ غرضیکہ اس کی ایک ایک ادا سے نخوت اور بڑائی ٹپکنے لگتی ہے۔ اور وہ دوسروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا یہی صورت حال قارون کی تھی۔ بنی اسرائیل کے کچھ بزرگوں نے اسے از راہ نصیحت کہا کہ اگر اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اپنے آپ کو ضبط اور کنٹرول میں رکھو، بات بات پر اترانا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔