سورة النمل - آیت 64

أَمَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور وہ کون ہے جس نے مخلوق کی ابتدا کی اور پھر اسے لوٹائے گا اور کون تمہیں کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ فرمایں کہ لاؤ اگر تم سچے ہو۔“ (٦٤)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٩]نباتات اور جانداراشیاء کی انواع جوانسان کےعلم میں آچکی ہیں:۔ آغاز خلق اور اعادہ خلق کا مسئلہ بھی اپنے اندر اللہ کی ہزارہا قدرتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور انسان جتنا اس معاملہ میں غور کرتا ہے اس کی حیرانگی میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ اس مسئلہ میں سب سے پہلا سوال یہ پیش آتا ہے کہ روح کیا چیز ہے جس پر زندگی کا مدار ہے۔ اور یہ سوال آج بھی ایسا پیچیدہ اور لاینحل ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت تھا۔ انسان نے یہ تو دریافت کرلیا کہ مثلاً انسان فلاں فلاں عناصر کا مرکب ہے اور انسان کے جسم میں ان عناصر کی مقدار اتنی اور اتنی ہوتی ہے۔ مگر انہی عناصر کو اسی مقدار کے مطابق ترکیب دے کر ایک زندہ انسان بن کھڑا کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اور یہ مسئلہ غالباً تاقیامت لاینحل ہی رہے گا۔ پھر یہ صرف ایک انسان کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام جاندار اشیاء کا مسئلہ ہے۔ جس میں نباتات بھی شامل ہیں۔ نباتات بھی جانداروں کی طرح بڑھتی ہے۔ پھلتی پھولتی ہے حتیٰ کہ احساس و شعور بھی رکھتی ہے۔ اس وقت تک روئے زمین پر نباتات کی تقریباً دو لاکھ انواع اور جاندار اشیاء کی تقریباً دس لاکھ انواع انسان کے علم میں آچکی ہیں۔ جو اپنی ساخت، عناصر اور ترکیب کے لحاظ سے بالکل ایک دوسرے سے الگ ہیں اور جب سے انسان نے ان انواع کو جاننا شروع کیا اس وقت سے لے کر آج تک انسان کے علم میں یہ بات نہیں آسکی کہ نباتات یا حیوانات کی کوئی نوع ارتقاء کی منزل طے کرکے اپنے سے کسی اعلیٰ جنس میں تبدیل ہوگئی ہو۔ بلکہ جس حال میں انسان نے اسے پہلے دن دیکھا تھا اسی حال میں بھی یہ آج بھی پائی جاتی ہے۔ جس سے ڈارون کے نظریہ کا از خود ابطال ہوجاتا ہے اگرچہ ڈارون کے نظریہ کے باطل ہونے کے اور بھی بے شمار دلائل موجود ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے نباتات کی اور حیوانات کی جس نوع کو جس طرح پہلے دن پیدا کیا تھا آج بھی وہ اسی صورت میں پائی جاتی ہے اور انسان کی تخلیق تو ایک بالکل خصوصی نوعیت رکھتی ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ (٣٨: ٧٥) آغازخلق اور اعادہ خلق کا سلسلہ ہرآن جاری ہے:۔ اور اعادہ خلق سے صرف یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام انسانوں کو ان کی قبروں سے زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرے گا۔ بلکہ اعادہ خلق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر آن مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ پیدا کر رہا ہے۔ اور یہ نظام نباتات اور حیوانات کی تمام تر اقسام میں جاری و ساری ہے۔ مثلاً ایک ننھے سے بیج کو لیجئے اس میں اس درخت کی وہ تمام تر خصوصیات سمو دی گئی ہیں جس کا وہ بیج ہے۔ جب اس بیج کو نشوونما کا موقع ملے گا تو اس میں وہ تمام تر خصوصیات مثلاً اس کا رنگ، اس کا مزا، اس کی بو، اس کا قد و قامت، اس کا پھل اسی درخت جیسا ہوگا جس کا وہ بیج تھا۔ اسی طرح کسی جاندار یا انسان کے نطفہ میں اس انسان کی شکل و صورت ہی منتقل نہیں ہوتی بلکہ اس کی عادات و خصائل تک منتقل ہوجاتی ہیں۔ رہا انسان کا جسم اور اس کے اندر پیچیدہ مشینری، اس کا عصبی، عضلاتی، لحمی اور ہڈیوں کی پیدائش کا نظام یہ سب چیزیں اس انسان کے نطفہ میں ایک خوردبینی جرثومہ کی شکل میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ اور جب اسے نشوونما کا موقع میسر آتا ہے تو یہ سب چیزیں عملی طور پر وجود میں آجاتی ہیں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک جاندار کے جرثومہ میں کسی دوسرے جرثومہ کے خواص منتقل ہوجائیں۔ یا مثلاً کسی عورت کے رحم میں اونٹ کا جرثومہ چلا جائے تو اس کے ہاں اونٹ کا بچہ پیدا ہوجائے اللہ کا اعادہ خلق کا نظام آغاز خلق سے بھی زیادہ پیچیدہ اور حیران کن ہے۔ اب غور فرمائیے کہ اس آغاز خلق اور اعادہ خلق کے نظام میں اللہ کے علاوہ کسی فرشتے، کسی نبی، کسی ولی، کسی جن، کسی پیروفقیر، یا کسی سیارے یا بت کا عمل دخل ہے؟ اگر نہیں تو پھر وہ عبادت کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں؟ [٧٠] خوراک کی پیدائش کےعوامل:۔ تمام نباتات اور حیوانات کی ضروریات زندگی اگرچہ زمین ہی سے وابستہ ہیں۔ تاہم ان کی خوراک، پیدائش میں بہت سے دوسرے عوامل بھی کام کرتے ہیں۔ سب سے بڑا عامل تو زمین کی قوت روئیدگی ہے۔ مٹی کی تاریکی میں ہی بیج کی نشوونما شروع ہونے لگتی ہے۔ دوسرا عامل سورج ہے۔ جس کی گرمی سے سطح سمندر سے آبی بخارات اٹھتے ہیں۔ تیسری عامل ہوائیں ہیں جو ان آبی بخارات کی سمت موڑتی ہیں۔ چوتھا عامل پہاڑوں کی بلندی یا کسی بلند طبقہ کی ٹھنڈک ہے جو پھر سے ان آبی بخارات کو پانی کے قطروں کی شکل میں تبدیل کردیتا ہے۔ پھر اسی پانی کے ساتھ زمین کی قوت روئیدگی ملتی ہے۔ تب جاکر نباتات اگتی ہے اور انسان اور حیوانات کو رزق میسر آتا ہے۔ غور فرمائیے کہ ان سمندروں، اس سورج، ان ہواؤں، ان پہاڑوں اور اس زمین کی پیدائش میں اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کا کچھ عمل دخل ہے؟ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بارش فلاں سیارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے پر یا اس سیارے کی روح کے مجسمے یا بت کی قربانی یا نذرانہ دینے سے ہوتی ہے تو اسے کوئی تجرباتی مشاہداتی یا نقلی دلیل پیش کرنا چاہئے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو اللہ کی رزاقیت میں دوسرے کیسے شامل ہوسکتے ہیں۔ اور لوگوں کے داتا کیسے بن سکتے ہیں؟