سورة النمل - آیت 49

قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

انہوں نے آپس میں کہا اللہ کی قسم کھا کر عہد کر وکہ ہم صالح اور اس کے گھر والوں پر شبخون ماریں گے اور پھر اس کے وراثوں سے کہیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہیں تھے اور ہم بالکل سچ کہتے ہیں۔ (٤٩)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٠]قوم ثمود کے ان غنڈوں کی سازش:۔ جب ان لوگوں نے ملی بھگت سے قدار کو آگے لگا کر ناقۃ اللہ کو زخمی کردیا۔ تو حضرت صالح نے ان لوگوں کو تین دن بعد عذاب آنے کا الٹی میٹم دے دیا۔ اس الٹی میٹم کے بعد بھی ان لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ عذاب تو آتا ہے یا نہیں۔ اس سے پہلے ہی ہم کیوں نہ صالح اور اس کے گھر والوں کا قصہ بھی تمام کردیں۔ چنانچہ نو بدمعاشوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو بھی ٹھکانے لگا دینے کی ویسی ہی سکیم بنائی جیسی قریش مکہ نے ہجرت سے پیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قصہ پاک کردینے کے لئے بنائی تھی۔ البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ قریش نے یہ سمجھا کہ اس طرح بلوا کی صورت میں قتل کرنے پر ہم سے دیت کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ ہم آپس میں بانٹ لیں گے۔ لیکن یہ بدمعاش ان سے بھی چار ہاتھ آگے کی بات سوچ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب حضرت صالح علیہ السلام کے ولی( جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولی حضرت ابو طالب تھے) ہم سے کوئی بات پوچھیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ ہم تو موقع پر موجود ہی نہ تھے۔ ہمیں کیا خبر کہ کون ان کو قتل کر گیا ہے۔ اور دوسرا فرق یہ تھا کہ قریش مکہ نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا جبکہ ان بدمعاشوں نے حضرت صالح اور ان کے پورے خاندان کو مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اپنے اس منصوبہ کے معاہدہ پر سب نے ایک دوسرے کے سامنے قسمیں کھائیں کہ ایک تو اس خاندان کو قتل کرکے دم لیں گے اور دوسرے اپنے جرم کا کبھی اعتراف نہ کریں گے۔