وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ
میں ان لوگوں کی طرف ایک ہدیہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ میرے سفیر کیا جواب لے کر پلٹتے ہیں۔“ (٣٥)
[٣٢] سیدنا سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں وفد کی روانگی:۔ ملکہ کی اس تقریر سے یہ تو صاف واضح تھا کہ وہ مقابلہ کے لئے تیار نہیں۔ مگر وہ فوری طور پر مطیع فرمان ہونے پر بھی آمادہ نہ تھی۔ لہٰذا اس نے ایک دانشمندانہ قوم اٹھاتے ہوئے درمیانی راستہ اختیار کیا۔ جو یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک وفد بھیجا جائے اور ساتھ کچھ تحفے تحائف بھی بھیجے جائیں ان لوگوں کے ردعمل سے ان کی ذہنیت پوری طرح واضح ہوجائے گی۔ چنانچہ اس نے ہدہد کی صورت میں بہت سامان و دولت کچھ سونے کی اینٹیں اور کچھ نوادرات بھیجے اور وفد کے لئے ایسے آدمی انتخاب کئے جو بہت خوبصورت تھے اور اس سے دراصل وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا امتحان لینا چاہتی تھی وہ کس قسم کی اشیاء کا شوق رکھتے ہیں۔ نیز یہ کہ اگر وہ دنیا دار بادشاہ ہے تو تحائف قبول کرلے گا۔ اندریں صورت اس سے جنگ بھی لڑی جاسکتی ہے اور نبی ہے تو تحفے قبول نہیں کرے گا نہ اس سے مقابلہ ممکن ہوگا۔