أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
جس کا مضمون ہے کہ میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہو کر میرے پاس حاضرہوجاؤ۔“ (٣١)
[٢٩]سیدناسلیمان علیہ السلام کےمختصر سےخط کی امتیازی خصوصیات:۔ جس وقت نامہ بر ہدہد نے یہ خط دربار میں ملکہ سبا کے سامنے پھینکا اس وقت وہ سورج کی عبادت کے لئے تیار کر رہی تھی۔ اس خط نے اسے عجیب قسم کی کشمکش میں مبتلا کردیا۔ کیونکہ یہ خط کئی پہلوؤں سے بہت اہم تھا۔ مثلاً ایک یہ کہ یہ خط اسے غیر معمولی طریقہ سے ملا۔ یعنی یہ خط کسی ملک کے سفارت خانہ کی معرفت نہیں بلکہ ایک نامہ بر پرندہ کے ذریعہ ملا تھا۔ دوسرے یہ کہ یہ خط کسی معمولی درجہ کے حاکم سے نہیں بلکہ شام و فلسطین کے عظیم فرمانروا کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ تیسرا یہ کہ یہ خط رحمٰن اور رحیم کے نام سے شروع کیا گیا تھا کہ ان ناموں سے یہ لوگ قطعاً متعارف نہ تھے۔ اور چوتھے یہ کہ اس انتہائی مختصر سے خط میں ملکہ سے مکمل اطاعت کا اور پھر اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی بتلا دیا گیا تھا کہ میرے مقابلہ میں سرکشی کی راہ اختیار نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ پانچویں یہ کہ انداز خطاب ایسا تھا جس میں کسی قسم کی کوئی لچک نہ پائی جاتی تھی۔ اس آیت میں ﴿وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴾ کے الفاظ آئے ہیں۔ مسلمین کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ میرے فرمانبردار بن کرمیرے ہاں آؤ۔ اور یہ حکم آپ کی فرمانروائی سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسلام لاکر یا مسلمان ہو کر میرے ہاں آؤ اور سورج پرستی چھوڑ دو۔ اور یہ حکم آپ کی نبوت سے تعلق رکھتا ہے اور آپ چونکہ بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ لہٰذا اس سلسلہ میں اپنے سرکاری امیروں، وزیروں سے مشورہ کرنا ہی مناسب سمجھا۔ چنانچہ اس نے سب کو اکٹھا کرکے اس خط کے وصول ہونے اور اس کی مختلف پہلوؤں سے اہمیت سے آگاہ کیا پھر اسے پوچھا کہ : تم لوگ مجھے اس خط کے جواب کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو؟ اور یہ تو جانتے ہی ہو کہ میں سلطنت کے ایسے اہم کاموں میں پہلے بھی تم سے مشورہ کرتی رہی ہوں۔ اور از خود میں نے کبھی مشورہ کے بغیر کسی کام کا فیصلہ نہیں کیا۔