سورة الشعراء - آیت 29

قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَٰهًا غَيْرِي لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” فرعون نے کہا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ قیدی بنا دوں گا جوقید خانوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ (٢٩)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٢]فرعون کےخدائی کے دعویٰ کی نوعیت کیاتھی؟ دنیا میں جتنے بھی مشرکین یا خدائی کے دعوے دار گزار ہیں۔ وہ سب یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ اس کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ فرعون کا بھی یہی حال تھا وہ خدائی کا دعویدار صرف ان معنوں میں تھا کہ وہ اپنے سیاسی اقتدار میں کسی بالاتر ہستی کی مداخلت کا قائل نہ تھا۔ بالفاظ دیگر وہ اللہ تعالیٰ کے اس پوری کائنات کے خالق و مالک ہونے کا تو قائل تھا مگر اس کی قانونی یا سیاسی حاکمیت کا قائل نہ تھا۔ اور اپنی مملکت میں اپنے قانون کو ہی بالاتر قانون سمجھتا تھا۔ اور اپنی رعیت کو بھی اسی راستے پر لگائے ہوئے تھا۔ اور موسیٰ علیہ السلام نے اس سے جو مطالبہ کیا تھا وہ براہ راست اس کے قانونی اور سیاسی اختیارات پر حملہ تھا۔ لہٰذا اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی کو حکومت کے باغی قرار دیتے ہوئے یہ دھمکی دی کہ اگر تم اپنے مطالبہ سے باز نہ آئے تو میں تمہیں ملکی قانون بغاوت کے جرم میں قید میں ڈال دوں گا۔