سورة الفرقان - آیت 1

تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ تمام جہان والوں کو خبردار کرے۔“ (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] تبارک کالغوی مفہوم:۔ تبارک کا وہ مادہ ب ر ک ہے۔ اسی سے لفظ برکت ہے اور کسی چیز سے زیادہ سے زیادہ متوقع یا غیر متوقع فوائد حاصل ہوجانے کا نام برکت ہے۔ اور بابرکت وہ ذات ہے جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ متوقع اور غیر متوقع فوائد پہنچانے والی ہو۔ علاوہ ازیں تبارک کے لفظ میں بلندی اور تقدس کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور یہ لفظ اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔ [ ٢] مسلمانوں کااپنے نبی کی شان میں غلو:۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اپنے پیارے رسول کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی امتوں نے بھی اپنے رسول کی شان میں عقیدت مندی کی بنا پر غلو کیا تھا اور انہیں ان کے حقیقی مقام سے اٹھا کر اللہ کے ساتھ جا ملایا تھا۔ یہود نے کہا کہ عزیر کے جسم میں اللہ تعالیٰ نے حلول کیا ہے اور وہ اللہ کے اوتار تھے، ہندوؤں میں بھی اوتار یا حلول کا عقیدہ بکثرت پایا جاتا ہے اور نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بھی کہا بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ ہی بنا دیا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں اپنی امت کو تنبیہ فرمائی کہ ” مجھے میری حد سے ایسے نہ بڑھانا چڑھانا جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو چڑھا دیا میں تو اللہ کا بندہ ہوں لہٰذا تم یوں کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ۔“ (بخاری، کتاب بدءالخلق۔ باب واذکر فی الکتاب مریم) لیکن افسوس ہے کہ آپ کی اس تنبیہ کے باوجود مسلمانوں نے بھی وہی کچھ کیا جو پہلی امتیں کرتی رہیں۔ مسلمانوں کے طبقہ نے آپ کو نور من نور اللہ قرار دیا۔ اور کچھ لوگوں نے یوں کہا : وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفٰے ہو کر یہود و نصاریٰ نے تو اس حلول کے عقیدہ کو انبیاء تک محدود رکھا تھا مگر مسلمانوں نے یہ کمال دکھایا کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے بزرگوں میں بھی اللہ کے حلول کا عقیدہ اپنا لیا۔ اسی طرح کا ایک دوسرا شعر : اپنا اللہ میاں نے ہند میں نام رکھ لیا خواجہ غریب نواز بھی اسی عقیدہ حلول کی وضاحت کر رہا ہے۔ عبداللہ بن سبا یہودی کا کردار:۔ اسلام میں اس عقیدہ کو داخل کرنے والا ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا۔ یہ یمن کے شہر صنعاء کا رہنے والا اور نہایت ذہین و فطین آدمی تھا۔ جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ عملی میدان میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی یہودیوں میں سکت باقی نہیں رہ گئی تو اس نے فریب کاری کے طور پر اسلام قبول کیا اور درویشی کا لبادہ اوڑھ کر زہدوتقویٰ کے روپ میں سامنے آتا۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسلمان ہوا اور حالات کے دھارے کا انتظار کرتا رہا۔ اس کی یہ سازشی تحریک انتہائی خفیہ طور پر مکہ اور مدینہ سے اور دوسرے علاقوں مثلاً کوفہ، بصرہ اور مصر میں اپنا کام کر رہی تھی۔ بالآخر اسی یہود ی کے حامیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر مختلف الزامات عائد کئے اور موقعہ پاکر غنڈہ گردی کرکے ٣٥ ھ میں انہیں شہید کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اسلام کے جسم پر اس نے دو طرح کے وار کئے اور اپنی سازش کی کامیابی کے لئے حضرت علی کو بطور ہیرو منتخب کیا۔ اس کا پہلا وار یہ تھا کہ نو مسلم عجمی لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابتداری کی بنا پر خلافت کے اصل حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اور پہلے تین خلیفوں نے ان کا حق غصب کیا ہے۔ نئے مسلمان ابھی اسلامی تعلیمات سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے، دنیا کے عام دستور وراثت و نیابت کے مطابق اس کی چال میں آگئے۔ اور دوسرا وار دین طریقت کو اسلام میں داخل کرنا تھا۔ وہ خود درویشی کے روپ میں سامنے آیا تھا۔ لہٰذا ظاہر اور باطن کی تفریق کرکے اور شریعت و طریقت کے رموز بتا کر ان نو مسلموں میں دین طریقت کے ملحدانہ اور کافرانہ نظریات داخل کردیئے اور بتایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کی ذات کا مظہر ہیں اور اللہ ان کے بدن میں حلول کر گیا ہے۔ گویا اسلام میں حضرت علی وہ پہلے شخص ہیں جن کے متعلق حلول کا عقیدہ اپنایا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حلول کا عقیدہ تو بہت زمانہ بعد کی پیداوار ہے۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کا آپ کو اللہ کہنے والوں کوسزادینا:۔ عبداللہ بن سبا نے خود ایک دفعہ کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے رمز و کنایہ کی زبان میں کہا انت ھو یعنی ” تو وہی ہے“ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے نظریہ کو بھانپ گئے اور اسے سخت سرزنش کی اور بعد میں اسے سزا دینے کے لئے بلابھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ کوفہ سے راہ فرار اختیار کرچکا ہے۔ بہرحال اس نے اپنے معتقدین کی ایک جماعت تیار کرلی تھی۔ ایک دفعہ یہ لوگ علی الاعلان بازار میں کھڑے ہو کر اپنے اسی عقیدہ کا پرچار کر رہے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے غلام قنبر نے یہ باتیں سنیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جاکر اطلاع دی کہ کچھ لوگ آپ کو اللہ کہہ رہے ہیں۔ اور آپ میں خدائی صفات مانتے ہیں۔ آپ نے ان کو بلایا اور قوم زط کے ستر اشخاص تھے آپ نے ان سے پوچھا ” تم کیا کہتے ہو؟“ انہوں نے کہا کہ” آپ ہمارے رب ہیں اور خالق اور رازق ہیں“ آپ نے فرمایا :” تم پر افسوس! میں تو تم ہی جیسا ایک بندہ ہوں اور تمہاری طرح کھانے پینے کا محتاج ہوں۔ اگر اللہ کی اطاعت کروں گا تو مجھے اجر دے گا اور نافرمانی کروں گا تو سزا دے گا۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈر جاؤ اور اس عقیدہ کو چھوڑ دو“۔ دوسرے دن قنبر نے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ وہ لوگ پھر وہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ آپ نے دوبارہ انھیں بلایا اور تنبیہ کی۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ باز نہ آئے۔ تیسرے دن آپ نے انھیں بلا کر یہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم نے پھر یہی بات کہی تو میں تم کو نہایت بری سزا دوں گا۔ مگر اس جماعت کا سرغنہ عبداللہ بن سبا تو ایک خاص مشن کے تحت یہ تحریک چلارہا تھا۔ لہٰذ ا یہ لوگ اپنی بات پر اڑے رہے۔ آپ نے ایک گڑھا کھدوایا جس میں آگ جلائی گئی اور ان سے کہا۔ ” دیکھو اب بھی باز آجاؤ ورنہ اس گڑھے میں پھینک دوں گا مگر وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے آگ میں پھینک دیئے گئے۔“ (فتح الباری۔ ج ١٢، ص ٢۳٨) امام بخاری نے یہ حدیث مختصراً کتاب استتبابةالمرتدین میں درج فرمائی ہے اور ان حلولیوں کے لئے ” زنادقہ“کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ بھی صراحت کی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اگر میں حاکم ہوتا تو ان کو جلانے کے بجائے ان کے قتل پر اکتفا کرتا۔ حلول کا عقیدہ رکھنے والے وہ لوگ جو بچ رہے تھے اپنے عقیدہ میں اور بھی سخت ہوگئے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ آگ اور پانی سے عذاب دینا صرف اللہ کو سزاوار ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی چونکہ آگ سے جلایا ہے لہٰذا وہ عین اللہ ہیں۔ وہ زبان سے یہ کہتے تھے کہ لا لعذب بالنار الا رب النار ”یعنی آگ کا رب بھی آگ سے سزا دیتا ہے۔“ عبداللہ بن سبا کا یہ عقیدہ اس کے پیروکار نصیریہ، کیسانیہ، قرمطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیاء کے اندر داخل ہوگیا حسین بن منصور حلاج( م ٣٠٩ ھ ) اس عقیدہ کا علمبردار اعلیٰ تسلیم کیا جاتا ہے اور اسلام میں یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے خود اپنی ذات کے متعلق کھل کر یہ دعویٰ کیا کہ اللہ اس کے اندر حلول کر گیا ہے۔ گویا اس سے پہلے بھی کچھ صوفیاء اس عقیدہ کے حامی اور اسے اپنے سینوں میں چھپائے رکھتے تھے، مگر عقیدہ کو شہرت دوام حلاج ہی کی ذات سے ہوئی۔ وہ خود اناالحق کا دعویٰ کرتا تھا سمجھانے کے باوجود جب وہ اپنے عقیدہ پر مصر رہا تو خلیفہ بغداد المقتدر باللہ نے علماء سے فتویٰ لینے کے بعد ٢٤ ذی قعدہ ٣٠٩ ھ (٩١٤ء) کو بغداد میں قتل کردیا اور اس ''خدا'' کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا اور اس کی خدائی اپنے آپ کو بھی موت اور لاش سے جلنے کے عذاب سے بچا نہ سکی۔ مگر حیرت تو اس بات پر ہے کہ حسین بن منصور کے اتنے شدید جرم کے صوفیاء کی اکثرت نے اس کے حق پر ہونے کی حمایت کی لہٰذا حلول کا عقیدہ آج تک مسلمانوں میں متوارت چلا آرہا ہے۔ چنانچہ امام اہل سنت رضا خان بریلوی فرماتے ہیں : سوال : حضرت منصور، تبریز اور سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے( یعنی یہ تینوں حضرات خدائی کے دعویدار تھے) لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں۔ جبکہ فرعون، شداد، ہامان، اور نمرود نے یہی دعویٰ کیا تھا تو وہ دائمی جہنمی ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب : ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے( یعنی منصور، تبریز اور سرمد نے )خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے۔ اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ نے درخت سے سنا۔ انی انا اللہ میں ہوں اللہ رب سارے جہان کا، درخت نے کہا تھا؟۔۔۔ بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجر موسیٰ ہوتے ہیں ( احکام شریعت ص ٩٣) اہل سنت اور عقیدہ حلول :۔ اس جواب میں نشان زدہ الفاظ پر اور اس کی دلیل پر غور فرمائے اور دیکھئے کہ امام اہل سنت عقیدہ حلول کی کس قسم کے اسرار و رموز سے وکالت فرما رہے ہیں۔ فرعون، شداد، نمرود اور ہامان وغیرہ کو اللہ نے جہنمی قرار دیا اور اس کی اطلاع قرآن میں دی ہے۔ حلاج و سرمد وغیرہ کو ولی تو آپ لوگ کہتے ہیں۔ عامۃ المسلمین اور علماء نے تو منصور کو زندیق اور کافر قرار دے کر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تھا اور باقی دو کا انجام اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے مقام پر یہی امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ حضور پرنور سیدنا غوث اعظم حضور اقدس و انور سید عالم کے وارث کامل و نائب تام آئینہ ذات ہیں کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مع اپنی جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال کے ان میں متجلی ہیں۔ جس طرح ذات عزت احدیت مع جملہ صفات و نعوت و جلالت آئینہ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تجلی فرما ہے۔( فتاویٰ افریقہ ص ١٠١) گویا امام صاحب کے اس ارشاد نے واضح طور پر بتلا دیا کہ اللہ کی ذات رسول اللہ کی ذات میں جلوہ گر ہے۔ اسی طرح غوث اعظم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جلوہ گر ہے یہ ہے حلول کا وہ نظریہ جسے صوفیاء کے ہی ایک طبقہ نے گمراہ کن نظریہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ شرک فی الصفات کے علاوہ شرک فی الذات کی بھی واضح دلیل ہے۔ اسی باطل نظریہ کے رو میں اللہ نے سورۃ نساء میں فرمایا : ﴿ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ ﴾(۱۷۱:۴)”اے اہل کتاب اپنے دین میں علو نہ کرو اور وہی بات کہو جو حق ہو“ اور سورۃ مائدہ میں فرمایا : ﴿قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ﴾(۷۷:۵)”اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو“ ٣۔ فرقان کا مفہوم :۔فرقان مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی حق و باطل کو یا کفر اور ایمان کو بالکل الگ الگ کرکے دکھانے والا اور اس سے مراد قرآن ہے۔ جس نے ایمان اور اس کے مقابلہ میں کفر و شرک اور نفاق کی ایک ایک خصلت کو یوں واضح کرکے بتا دیا ہے کہ کچھ ابہام باقی نہیں رہتا۔ اور بعض علماء نے فرقان سے مراد حلت و حرمت کے احکام کو جدا جدا کرکے واضح طور پر بتا نے والا لیا ہے۔ اور یوم الفرقان سے مراد غزوہ بدر کا دن ہے جو حق و باطل کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ ثابت ہوئی۔ ٤۔ آپ کی رسالت اور قرآن کی ہدایت قیامت تک سب لوگوں کےلیے ہے:۔ لیکون کی ضمیر عبدہ کی طرف بھی راجع قرار دی جاسکتی ہے اور فرقان یعنی قرآن کی طرف بھی اور صاحب قرآن کی طرف بھی۔ کیونکہ قرآن اور صاحب قرآن دونوں کی دعوت ایک ہی ہے۔ قرآن مراد لینے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن سب لوگوں کے لئے تاقیامت کتاب ہدایت ہے اور صاحب قرآن مراد لینے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ آپ تاقیامت تمام تر لوگوں کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور قرآن ہو یا صاحب قرآن دونوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے برے اعمال کے برے انجام سے خبردار کیا جائے۔