سورة النور - آیت 2

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کوسو، سو کوڑے مارو۔ اور اللہ کے دین کے معاملے میں تمہیں ان پر ترس نہیں آنا چاہیے اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ تو ان کو سزادیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔“ (٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣] زنا کی سزا سے متعلق پہلا حکم سورۃ نور کی آیت نمبر ١٥ اور ١٦ میں نازل ہوا تھا۔ جن کا ترجمہ یہ ہے ’’تم میں سے جو عورتیں بدکاری کی مرتکب ہوں، ان پر چار مردوں کی گواہی لاؤ، پھر اگر وہ چاروں گواہی دے دیں تو تم ایسی عورتوں کو گھروں میں بند رکھو تاآنکہ وہ مرجائیں یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لئے دوسری راہ مقرر کردے۔ اور پھر جو دو مرد تم میں سے اسی جرم کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو ایذا دو۔ (٤: ١٥، ١٦) ان آیات سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ مرد اور عورت دونوں کے لئے ابتدائی سزا ان کو ایذا پہنچانا تھا جس میں لعنت ملامت اور مارپیٹ سب کچھ شامل ہے۔ البتہ عورتوں کے لئے یہ اضافی سزا تھی کہ تازیست انہیں گھر میں نظر بند رکھا جائے۔ ٢۔ ایسی سزا کا حکم عارضی اور تاحکم ثانی ہے۔ ٣۔ یہ سزا حکومت سے نہیں بلکہ معاشرہ سے تعلق رکھتی تھی۔ ٦ ہجری میں واقعہ افک پیش آیا جس کے نتیجہ میں ٦ ہجری کے آخر میں سورۃ نور میں یہ سزا مقرر کی گئی جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اس آیت میں زنا کی جو سزا مقرر کی گئی ہے صرف کنوارے زانی کے لئے ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اس کی دلیل اس سے اگلی آیت ہے جو یوں ہے : ’’زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ عورت کے ساتھ اور زانیہ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک مرد کے ساتھ اور مومنوں پر یہ چیز حرام کردی گئی ہے‘‘ (٢٤: ٣) اب دیکھئے کہ اس آیت میں (١) جن زانیوں کی سزا کا ذکر ہے ان کے ساتھ نکاح کی بھی ممانعت ہے اور یہ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ مرد اور عورت غیر شادی شدہ ہوں۔ (٢) کوڑوں کی سزاصرف کنوارے مردا ور عورت کےلیے کیوں ہے؟ زانی مرد سے نکاح کا حق صرف زانیہ عورت کو دیا گیا ہے۔ اب وہ عورت پہلے ہی شادی شدہ ہو تو زنا کے بعد اس کا مستحق کوئی زانی ہی ہوسکتا ہے، نہ کہ اس کا پہلا خاوند جس کا کوئی قصور بھی نہیں۔ اس طرح یہ سزا یا قید زانی کے حق میں تو مفید رہے گی۔ مگر پرہیزگار خاوند کے حق میں خانہ بربادی کا باعث بنے گی اور یہ چیز منشائے الٰہی کے خلاف ہے۔ (٣) ہمارے اس دعویٰ کی تائید سورۃ نساء کی آیت نمبر ٢٥ سے بھی ہوتی ہے جو یوں ہے ’’اور تم سے جو لوگ مومن آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔ تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کرلیں۔ پھر اگر وہ لونڈیاں نکاح کے بعد بھی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا سے آدھی سزا ہے جو آزاد عورتوں کو دی جائے‘‘ اس آیت میں پہلی بار جو لفظ محصنٰت آیا ہے۔ اس کا معنی تو 'آزاد غیر شادی شدہ عورت' کے سوا کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ جس سے نکاح کی ہدایت کی جارہی ہے اور دوسری بار جو اس آیت میں محصنٰت کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی بھی لامحالہ ’آزاد غیر شدہ شادی عورت‘ ہی لینا پڑے گا اور آزاد غیر شادی شدہ زانیہ کی سزا سو درے ہے۔ لہٰذا منکوحہ زانیہ لونڈی کی سزا آزاد غیر شادی شدہ عورت کی سزا سے نصف یعنی پچاس کوڑے ہے۔ منکرین رجم کا اعتراض اور ا س کاجواب:۔ اس آیت میں جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ نور میں مذکور سزا صرف کنوارے مرد و عورت کی ہی ہوسکتی ہے وہاں منکرین حدیث کے ایک اعتراض کا جواب بھی مہیا کردیتی ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ شادی شدہ آزاد عورت کی سزائے زنا حدیث کے مطابق رجم ہے اور شادی شدہ لونڈی کی سزائے زنا قرآن کے مطابق شادی شدہ آزاد عورت کی سزا کا نصف ہے۔ اور نصف رجم بنتی ہے اور نصف رجم چونکہ ممکن نہیں۔ اس لیے حدیث میں وارد شدہ سزائے رجم درست نہیں ہوسکتی۔ درست بات یہ ہے کہ عورت اور مرد چاہے کنوارے ہوں یا شادی شدہ بلا امتیاز سب کی سزا سو کوڑے ہے۔ اس اعتراض کے جواب سے پہلے یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ لونڈی کا آزاد ہونا بھی احصان (یا زنا سے بچاؤ) کا ذریعہ ہے اور نکاح دوسرا ذریعہ ہے۔ آزاد عورت ایک لحاظ سے تو پہلے ہی محصن ہوتی ہے۔ شادی کے بعد احصان کا دوسرا درجہ بھی حاصل کرلیتی ہے۔ لہٰذ لغوی لحاظ سے ہم محض آزاد کنواری عورت کو محصن کہہ سکتے ہیں اور بیاہی عورت کو بھی خواہ وہ لونڈی ہو یا آزاد ہو اب منکرین حدیث اس اعتراض میں لوگوں کو فریب یہ دیتے ہیں کہ محصنٰت کا ترجمہ تو بیاہی آزاد کرلیتے ہیں۔ حالانکہ جس آیت (٢: ٢٤) میں لونڈی کی سزا مذکور ہے اس میں محصنٰت کا ترجمہ آزاد بیاہی عورت ہو ہی نہیں سکتا۔ جب کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے۔ اور منکرین حدیث کا تو شیوہ ہی یہ ہے کہ پہلے کسی حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کردیتے ہیں۔ پھر سارے ذخیرہ حدیث پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ تو واضح بات ہے کہ شادی شدہ مرد و عورت کا زنا کرنا کنوارے جوڑے کے زنا کرنے سے شدید جرم ہے۔ زنا کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ کنوارہ لڑکا اور لڑکی زنا کریں۔ اس قسم کے زنا کو سابقہ تہذیبوں میں معیوب ضرور سمجھا جاتا رہا ہے لیکن قابل دست اندازی سرکار جرم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ سابقہ شریعتوں میں بھی ایسے زنا کی سزا نسبتاً کم تجویز کی گئی تھی۔ دوسری قسم یہ ہے کہ کوئی کنوارا کسی شادی شدہ عورت سے یا شادی شدہ مرد کسی کنواری عورت سے زنا کرے اسے) Adultery ( کہتے ہیں۔ تیسری قسم یہ ہے کہ فریقین شادی شدہ ہوں۔ یہ اقسام سابقہ تہذیبوں اور علی ھذالقیاس شریعتوں میں بھی ایسے جرائم سمجھے جاتے رہے ہیں جن میں حکومت بھی مداخلت کرسکتی ہے اور فریقین میں سے ہر کسی کو یہ حق بھی حاصل تھا کہ وہ ایسا دعویٰ عدالت میں لے جائے اور اس طرح کے دعووں کی اصل بنیاد کسی بھی فریق کے حقوق کی پامالی ہوتی تھی نہ کہ فعل زنا۔ مثلاً کوئی شخص کسی بیاہی عورت سے زنا کرکے پیدا ہونے والے بچے کی تربیت کا سارا بوجھ بھی بیاہی عورت کے خاوند پر ڈال دیتا ہے اور اس کی وراثت میں بھی اسے حصہ دار بنا دیتا ہے۔ اسی طرح اگر شادی شدہ مرد زنا کرتا ہے اور اس کی بیوی اس کا یہ فعل برداشت نہیں کرتی تو وہ عدالت میں نالش کرسکتی ہے۔ اور اگر فریقین شادی شدہ ہوں تو اور بھی زیادہ تمدنی اور خاندانی جھگڑے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اسلامی شریعت کا امتیازی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے محض زنا کو ہی اصل جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردی جو قرآن میں مذکور ہے اور یہ کم سے کم سزا ہے۔ اور یہ تو واضح ہے کہ محض زنا صرف کنوارے جوڑے کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔ ایسا زنا خواہ فریقین کی رضا مندی سے ہو تب بھی انھیں سو سو کوڑے کی سزا ضرور ملے گی۔ زنا کے سدباب کے ذرائع :۔ اسلام نے سب سے پہلے فحاشی کے ذرائع کا سد باب کیا۔ سورۃ احزاب جو اس سورۃ سے قریباً ایک سال پہلے نازل ہوئی تھی، میں مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ محرم رشتہ داروں کے علاوہ کسی کے سامنے اپنی زیب و زینت ظاہر نہیں کرسکتیں ان کا اصل مقام گھر ہے۔ لہٰذ وہ دور جاہلیت کی طرح گھر سے باہر اپنی زیب و زینت کا اظہار بھی نہیں کرسکتیں اور اگر ضرورتاً جانا پڑے تو بڑی چادر اوڑھ کر ہی جاسکتی ہیں۔ پھر اس سورۃ نور میں مزید ایسے بہت سے احکامات دیئے گئے جو فحاشی کے سدباب کا ذریعہ تھے۔ نیز یہ حکم دیا گیا کہ معاشرہ میں جو لوگ مجرد ہیں خواہ وہ عورتیں ہوں یا مرد، غلام ہوں یا لونڈیاں، اور وہ بیوہ یا مطلقہ عورتیں ہوں یا ایسے مرد ہوں جن کی بیویاں فوت ہوچکی ہوں سب کے نکاح کردیئے جائیں (٢٤: ٣١، ٣٢) نیز نکاح کے سلسلہ میں انھیں تمام ممکنہ سہولتیں دی گئیں۔ اس کے باوجود بھی جو لوگ مہر کی رقم یا بیوی کے نان نفقہ کی بھی طاقت نہیں رکھتے تھے انھیں پاکدامن رہنے اور روزہ رکھنے کی ہدایات دی گئیں۔ شادی شدہ مردوعورت کازنا شدید ترین جرم ہے:۔ اب یہ تو واضح ہے کہ ان احکامات اور حدود و قیود کے بعد زنا کا زیادہ خطرہ نوجوان اور بے زوج قسم کے لوگوں یعنی کنوارے مردوں اور کنواری عورتوں سے ہی ہوسکتا تھا کیونکہ ان کے پاس شہوت کی تکمیل کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ لہٰذ قرآن نے ایسے لوگوں کے زنا کے جرم کو اصل بنیاد قرار دیا ہے۔ دوسرے ایک جائز ذریعہ تکمیل خواہش موجود ہونے کے باوجود اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ لہٰذ ایسے لوگوں کی سزا ہی شدید تر ہونی چاہئے۔ رحم ہماری شریعت کا حصہ کیوں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی سزا وہی رہنے دی جو شریعت موسوی میں موجود تھی۔ اور یہ بات ہم پہلے بھی سورۃ انعام کی آیت نمبر ٩٠ کے الفاط فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ کے ضمن میں بتلا چکے ہیں کہ سابقہ شریعتوں کے ایسے احکام جن کے متعلق کتاب و سنت میں کسی قسم کی نکیر نہ وارد ہو وہ بھی شریعت کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو یہی رجم ہے اور دوسری مثال اعضاء و جوارح کا قصاص ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٤٥ میں حکایتاً یوں بیان فرمایا کہ 'ہم نے اس (تورات) میں یہ لکھا دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا قصاص ہوگا' یہ حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کو اعضا و جوارح کے قصاص کے متعلق الگ کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود یہ احکام ہماری شریعت کا حصہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کے مطابق فیصلے صادر فرمائے۔ شادی شدہ یہودی جوڑےکارجم :۔ اسی طرح ایک یہودی اور یہودن کے زنا کا مقدمہ آپ کے پاس آیا یہ دونوں شادی شدہ تھے۔ یہود یہ مقدمہ آپ کے پاس اس غرض سے لائے تھے کہ موسوی شریعت میں اس کی سزا رجم ہے شاید شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا کچھ نرم ہو۔ چنانچہ انہوں نے مقدمہ پیش کرنے والے سے کہہ دیا تھا کہ اگر اس کا فیصلہ رجم کی صورت میں دیا جائے تو قبول نہ کرنا اور اگر اس کے علاوہ اور فیصلہ دیا جائے تو قبول کرلینا۔ جیسا کہ سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٤١ میں مذکور ہے۔ آپ نے یہود سے تورات منگوالی تو اس میں رجم کا حکم موجود تھا پھر ان کے ایک بہت بڑے عالم ابن صوریا کو بلا کر شہادت لی تو اس نے بھی اعتراف کیا کہ شادی شدہ مرد و عورت کے زنا کی سزا رجم ہے۔ چنانچہ آپ نے ان دونوں کے رجم کا فیصلہ دے دیا اور فرمایا : ’’یا اللہ ! میں نے تیرے ایک ایسے حکم کو زندہ کیا ہے۔ جسےان لوگوں نے مردہ یعنی متروک العمل بنا چھوڑا تھا۔‘‘ (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے : بخاری، کتاب المحاربین۔ باب الرجم فی البلاط، مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الزنا۔ ابو داؤد۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہودین) امام بخاری کا اجتہاد:۔ امام بخاری اس واقعہ کو کتاب الحدود کے بجائے کتاب المحاربین میں اس لئے لائے ہیں کہ ان کے نزدیک شادی شدہ جوڑے کا زنا محض زنا نہیں بلکہ اس سے شدید تر جرم، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محاربہ ہے اور محاربہ کی قرآن میں مذکور سزاؤں میں سے ایک سزا یقتلوا یعنی کسی کو ایذائیں دے دے کر بری طرح سے مار ڈالنا اور وہ رجم کو بھی اسی قسم کے سزا سمجھتے ہیں۔ حدرجم سے انکارکی وجوہ:۔حد رجم سے انکار سب سے پہلے اولین منکرین حدیث یعنی معتزلہ نے پھر بعض خوارج نے کیا تھا۔ ان کے انکار کی وجہ محض انکار حدیث کے سلسلہ میں ان کی عصبیت تھی مگر آج کے دور میں ایک اور وجہ بھی اس میں شامل ہوگئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل مغرب اسلام کی ایسی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں سمجھتے ہیں۔ لہٰذ مغربیت سے مرعوب ذہن ایسی سزاؤں سے فرار اور انکار کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انکار حدیث یا قرآنی آیات کی تاویل کی وجوہ صرف دو ہی ہوسکتی ہیں ایک اتباع ہوائے نفس اور دوسری موجودہ دور کے نظریات سے مرعوبیت پہلے ادوار میں بھی یہی دو وجوہ انکار حدیث اور تاویل قرآن کا باعث بنتی رہی ہیں اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ آیت رجم اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا خطبہ:۔احادیث میں رجم سے متعلق ایک آیت کا بھی ذکر آتا ہے جو بعد میں منسوخ ہوگئی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے آخری ایام میں مسجد نبوی میں جمعہ کے دن مسلمانوں کے ایک کثیر مجمع کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ جسے تقریباً سب محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ اس خطبہ کے درج ذیل الفاط قابل غور ہیں۔ آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا : ”اس کتاب اللہ میں رجم کی بھی آیت موجود تھی جسے ہم نے پڑھا، یاد کیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ کہنے لگے کہ ہم رجم کے حکم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضہ کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا چھوڑ کر مر جائیں۔ کتاب اللہ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کتاب اللہ سے مراد تمام منزل من اللہ احکام ہوتے تھے) میں رجم کا حکم برحق ہے۔ اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ جبکہ اس کے زنا پر کوئی شرعی ثبوت یا حمل موجود ہو‘‘ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رجم الحبلیٰ من الزنااذااحصنت ) منسوخ التلاوت آیت کا حکم باقی رہنے کی تین وجوہ :۔ اس حدیث پر اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ آیت قرآن میں موجود تھی تو گئی کہاں؟ اور اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ وہ منسوخ ہوگئی۔ یہ ناسخ و منسوخ کی بحث چونکہ الگ تفصیل کی محتاج ہے۔ لہٰذ اسے ہم نے اس کے مناسب مقام سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر ١٠٦ کے تحت درج کردیا ہے۔ مختصراً یہ کہ جب اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں۔ (سَنُقْرِئُکَ فَلاَ تَنْسٰی الاَّ مَاشَاء اللّٰہُ) (٨٧: ٦، ٧) یعنی ہم آپ کو پڑھائیں گے جو آپ کو فراموش نہ ہوگا مگر جو کچھ اللہ چاہے، تو پر آخر ان لوگوں کو کیوں اعتراض ہے؟ دوسرا یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر یہ آیت منسوخ التلاوت ہے تو اس کا حکم کیسے باقی رہ گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حکم کو باقی رکھنے کا ذریعہ یہ منسوخ التلاوت آیت نہیں بلکہ اس حکم کے بقا کی دوسری تین وجوہ ہیں ایک یہ کہ تورات کا یہ حکم شریعت محمدیہ میں یہی بدستور باقی رکھا گیا ہے۔ جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے اور دوسری وجہ وہ متواتر احادیث ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ تین صورتوں کے علاوہ کسی کو جان سے مار ڈالنا حرام ہے۔ شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سنگسار کرکے مار ڈالنا، بطور قصاص اور قتل مرتد اور ان تمام صورتوں میں قتل کرنا حکومت کا کام ہے، عوام کا نہیں۔ علاوہ ازیں اس حکم رجم کو باقی رکھنے کا ذریعہ وہ واقعات ہیں جن پر آپ نے رجم کی سزا دی۔ اس مقام پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کوئی حدیث یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سےجب صحیح ثابت ہوجائے تو وہ بالکل اسی طرح واجب الاتباع ہوتی ہے جس طرح قرآنی احکام واجب الاتباع ہیں۔ اور اگر اس کلیہ سے انحراف کیا جائے گا تو قرآن کے احکام پر عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو خود تو سنت کو حجت تسلیم کرتے ہیں مگر منکرین حدیث کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رجم کی سزا سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے دی ہو۔ لیکن ان کا یہ خیال بھی غلط ہے سورۃ نور ٦٥ ہجری میں نازل ہوئی تھی اور ہمیں چند ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن میں یہ داخلی شہادت موجود ہے کہ رجم کے یہ واقعات بعد کے ہیں۔ مثلاً ١۔ رجم کے واقعات سورہ نور کے نزول کےبعدکےہیں:۔ غامدیہ عورت کا رجم ہوا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے پتھر مارا۔ جس سے خون کے چند چھینٹے حضرت خالد پر پڑگئے۔ تو آپ نے اس عورت کو گالی دی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد کو سخت تنبیہ کی اور حضرت خالد صلح حدیبیہ اور فتح مکہ (٨ ھ) کے درمیانی عرصہ میں اسلام لائے تھے۔ صلح حدیبیہ سے واپسی پر سورۃ فتح نازل ہوئی جس کا ترتیب نزول کے لحاظ سے نمبر ١١١ ہے جبکہ سورۃ نور کا نمبر ١٠٢ ہے۔ لہٰذ غامدیہ عورت والا واقعہ سورۃ نور کے نزول سے بہت بعد کا ہے۔ ٢۔ عسیف یا مزدور لڑکے کے مقدمہ کی پیشی کے وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خود وہاں موجود تھے اور وہ خود ہی اس روایت کے راوی بھی ہیں اور فرماتے ہیں کہ کنا عند النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بخاری۔ کتاب المحاربين۔ باب اعتراف الزنا) اور اس واقعہ میں اس مزدور کی مالکہ کو رجم کیا گیا۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جنگ خیبر (٧ ہجری) کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر ایمان لائے جبکہ سورۃ نور اس سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ ٣۔ یہودی اور یہودن کے رجم کے وقت حضرت عبداللہ بن ابی الحارث وہاں موجود تھے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ان دونوں کو رجم کیا جبکہ آپ اپنے دادا کے ساتھ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے۔ (فتح الباری۔ باب احکام اہل الذمہ ج ١٢ ص ١٤٤) پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی ایک کثیر تعداد کے سامنے مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرمایا تو مجمع میں سے کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان پر اعتراض نہیں کیا پھر اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ متفق علیہ چلاآرہا ہے۔ جس کا ماسوائے منکرین حدیث کے کسی نے انکار نہیں کیا۔ آج وحشیانہ سزا کے مغربی تخیل سے مرعوب ہو کر منکرین حدیث کا ماہوار رسالہ 'طلوع اسلام' ایک طرف تو اس مسئلہ کو پھیپھڑوں تک کا زور لگا کر اچھال رہا ہے اور دوسری طرف قرآن میں مذکور شرعی حدود کو زیادہ سے زیادہ شرعی سزائیں قرار دے رہا ہے اور ان میں رعایت کی کوئی بات خواہ وہ قرآن کے بجائے کسی کمزور سے کمزور روایت یا تاریخ سے مل جائے اسے تسلیم کرنے پر فوراً آمادہ ہوجاتا ہے۔ رجم سے متعلق ان تصریحات کے بعد اب ہم کچھ احادیث کا مکمل ترجمہ اور مکمل حوالہ درج کر رہے ہیں۔ جو حد اور اقامت حد سے متعلقہ احکام و ہدایت اور شرائط پر روشنی ڈالتی ہیں : ١۔ ماعز بن مالک اسلمی کے رجم کا واقعہ بخاری میں کئی ابو اب کے تحت مذکور ہے۔ ہم ان حدیثوں کا ملخص بیان پیش کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص (ماعز بن مالک اسلمی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے۔ اس نے آپ کو آواز دی اور کہنے لگا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے زنا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ یہاں تک کہ اس نے چار مرتبہ یہی الفاظ کہے۔ جب اس نے چار مرتبہ اپنے خلاف گواہی دی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلا کر پوچھا : ’’کیا تو مجنون تو نہیں؟‘‘ وہ کہنے لگا۔ ’نہیں‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تیرا نکاح ہوچکا ہے؟“ اس نے کہا، ’جی ہاں‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ”نکاح کے بعد صحبت کرچکا ہے؟‘‘ اس نے کہا، ”جی ہاں“پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ’’شاید تو نے بوسہ لیا ہوگا یا مساس کیا ہوگا یا آنکھ سے دیکھا ہوگا؟‘‘ اس نے کہا، ’’نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف ننگے لفظوں میں پوچھا : ’’کیا تو نے دخول کیا تھا ؟‘‘ اس نے کہا 'جی ہاں' تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا ’’اس کو لے جاؤ اور رجم کرو۔‘‘ پھر ہم لوگوں نے اس کو عید گاہ میں لے جاکر رجم کیا۔ جب اسے پتھر پڑے تو بھاگ کھڑا ہوا۔ ہم نے اسے مدینہ کے پتھریلے میدان میں جاپکڑا اور اسے رجم کر ڈالا۔ بعد میں اس واقعہ کی اطلاع آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب وہ بھاگ کھڑا ہوا تھا تو تم نے اسے چھوڑ دیا ہوتا‘‘ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رجم المحصن) ٢۔حدا ور اقامت سےمتعلق شرائط‘ہدایات اور احکام سے متعلقہ احادیث:۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی اور یہودن لائے گئے۔ جنہوں نے بدکاری کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے پوچھا : تم اپنی کتاب میں اس جرم کی کیا سزا پاتے ہو؟ وہ کہنے لگے : ہمارے عالموں نے منہ کا کالا کرنا اور دم کی طرف منہ کرکے سوار کرانا اس کی سزا بتلائی ہے۔ یہ سن کر عبداللہ بن سلام کہنے لگے۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے تورات منگوائیے۔ تورات لائی گئی تو ایک یہودی رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر اس سے پہلے اور بعد کی آیتیں پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھا جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو نیچے رجم کی آیت تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ دونوں رجم کئے گئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یہ دونوں بلاط کے پاس رحم کئے گئے اور میں نے دیکھا کہ یہودی یہودن پر جھک گیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب الرجم فی البلاط) ٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور زید بن خالد دونوں کہتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق ہمارا فیصلہ فرما دیجئے۔ یہ سن کر دوسرا فریق جو کچھ زیادہ سمجھ دار تھا کھڑا ہو کر کہنے لگا : ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے موافق فرمائیے۔ اور بات کرنے کی مجھے اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا : بتلاؤ۔ وہ کہنے لگا : میرا بیٹا اس شخص کے پاس نوکر تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے بدفعلی کی۔ میں نے سو بکریاں اور ایک غلام بطور فدیہ اسے دیا ہے۔ اس کے بعد میں نے کئی عالموں سے یہ مسئلہ پوچھا: وہ کہتے ہیں کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے پڑیں گے اور ایک سال کی جلاوطنی ہوگی۔ اور اس کی بیوی کا رجم ہوگا۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا: اس پروردگار کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میں کتاب اللہ کے مطابق تم دونوں کا فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور غلام جو تو نے دیا ہے تجھے واپس ہوگا۔ اور تیرے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہے۔ اور اے انیس (بن ضحاک) تو کل صبح اس (دوسرے فریق) کی بیوی کے پاس جاکر پوچھ اگر وہ اقرار کرے تو اسے رجم کردینا۔ چنانچہ دوسرے دن انیس اس عورت کے پاس گئے، اس نے اقرار کرلیا تو انیس نے اسے رجم کیا۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب اعتراف الزنا) ٤۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ غامدیہ کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے بدفعلی کی ہے۔ مجھے پاک کیجئے۔ آپ نے اس کو پھیر دیا۔ جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگی۔ شاید آپ مجھے ماعز کی طرح لوٹانا چاہتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں حاملہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابھی نہیں تاآنکہ تو بچہ جن لے۔ پھر جب اس نے بچہ جنا تو بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کرلے آئی اور کہا : اب تو میں بچہ جن چکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جا اسے دودھ پلا حتیٰ کہ اس کا دودھ چھڑائے۔ پھر جب اس نے دودھ چھڑایا تو بچے کو لے کر آئی جس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا اور کہنے لگی یہ بچہ ہے میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور اب یہ کھانا کھاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایک مسلمان کے حوالے کیا۔ پھر اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کے سینے تک گڑھا کھودا جائے اور لوگوں کو اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آگے بڑھے اور اس کے سر پر مارا۔ خون کے چھینٹے حضرت خالد کے منہ پر پڑے تو آپ نے اس عورت کو گالی دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خالد کو گالی دیتے سن لیا تو حضرت خالد سے فرمایا : خالد! یہ کیا بات ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹیکس لینے والا بھی ایسی توبہ کرے تو بخش دیا جائے۔ پھر آپ نے نماز جنازہ کا حکم دیا۔ نماز پڑھی گئی پھر دفن کی گئی۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالزنا) ٥۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے (شرع کی باتیں) سیکھ لو۔ اللہ نے (زانی) عورتوں کے لئے ایک راہ نکالی۔ جب کنوارا، کنواری سے زنا کرے۔ تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اگر شوہر دیدہ عورت، زن دیدہ مرد سے زنا کرے تو سو کوڑے اور رجم ہے۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالزنا) ٦۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مخزومی عورت (فاطمہ بنت اسود) نے چوری کی تو قریشیوں کو فکر لاحق ہوئی (کہ اب اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا) انہوں نے کہا : اس مقدمے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی جرأت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ کے سوا اور کون کرسکتا ہے۔ جو آپ کا محبوب ہے۔ خیر اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں آپ سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سفارش کرتے ہو؟ پھر آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا : ’’تم سے پہلے لوگ صرف اس وجہ سے تباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی طاقتور چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتا‘‘ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب ماذکر عن بنی اسرائیل) ٧۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عویمر عجلانی اور اس کی بیوی میں معافی کا فیصلہ دیا اور میں نے یہ حدیث بیان کی تو ایک شخص مجھ سے پوچھنے لگا : کیا یہ وہی عورت تھی جس کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو شہادتوں کے بغیر رجم کرسکتا تو اس عورت کو ضرور کرتا ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : نہیں، یہ ایک اور عورت تھی۔ اس کی بدکاری اسلام کے زمانہ میں کھل گئی تھی ۔ ( بخاری کتاب الطلاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لوکنت راجما بغیر بینة ) ٨۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تین شخص مرفوع القلم ہیں یعنی ان پر تکلیف شرعی نہیں۔ سویا ہوا یہاں تک کہ بیدا رہو دوسرے بچہ یہاں تک کہ بالغ ہو اور تیسرے مجنون، یہاں تک کہ اسے عقل آئے۔ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فیمن لا یجب علیہ الحد) ٩۔اثبات جرم میں شک کا فائدہ ملزم کو پہنچتاہے :۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جہاں تک ہوسکے مسلمانوں سے حدود کو ٹالنے کی کوشش کرو۔ اور مجرم کی رہائی کی کوئی بھی شکل نظر آرہی ہو تو اسے چھوڑ دو۔ اس لئے کہ حاکم اگر مجرم کو معاف کردینے میں غلطی کرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ سزا دینے میں غلطی کرے۔ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی درء الحدود) ١٠۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے کسی مسلمان کی کوئی مصیبت دور کردی۔ اللہ آخرت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت اس سے دور کردے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کا عیب چھپایا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا۔ اور جب تک کوئی شخص اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ اس کی مدد میں ہوتا ہے‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی الستر علی المسلم) ١١۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوڑے بھی لگائے اور جلا وطن بھی کیا۔ (اسی طرح) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑے بھی لگائے اور جلاوطن بھی کیا۔ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی النفی) ١٢۔زنا بالجبرمیں عورت پرحد نہیں :۔ حضرت علقمہ بن وائل کندی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ دور نبوی میں ایک عورت (فجر کی) نماز کے ارادہ سے نکلی اسے ایک مرد ملا جس نے اسے چھپا لیا پھر اس سے اپنی حاجت پوری کی وہ چیخنے لگی تو مرد چلا گیا۔ اتفاق سے ایک اور آدمی اس کے پاس سے گزرا تو اس عورت نے کہا کہ اس شخص نے میرے ساتھ ایسا اور ایسا کیا ہے۔ پھر کچھ مہاجر وہاں سے گزرے تو عورت نے وہی بات دہرائی۔ لوگوں نے اس مرد کو پکڑ لیا جس کے متعلق عورت کا گمان تھا کہ اس نے بدفعلی کی ہے۔ مگر حقیقتاً وہ زانی نہ تھا۔ اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رجم کا حکم دے دیا۔ اب وہ شخص کھڑا ہوا جس نے زنا کیا تھا کہنے لگا : یارسول اللہ ! اصل مجرم میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے فرمایا : تم چلی جاؤ۔ اللہ نے تجھے (جبر کی وجہ سے) بخش دیا۔ اور ملزم سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی بات کہی۔ پھر مجرم کے متعلق فرمایا کہ اسے رجم کردو۔ نیز فرمایا کہ اس شخص نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر تمام شہر والے ایسی توبہ کریں تو اس کی توبہ قبول ہوجائے۔ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی المرأۃ اذا استکرھت علی الزنا) ١٣۔ حضرت ابو بردہ بن نیار کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے علاوہ دس کوڑے سے زیادہ نہ مارے جائیں‘‘ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب کم التعزیر و الادب) ١٤۔ قیدکرنے کی مشروعیت :۔ حضرت بہزاد بن حکیم اپنے باپ سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ایک الزام میں قید رکھا۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب امتحان السارق بالضرب والحبس) ١٥۔ حضرت نعمان بن بشیر کے پاس قبیلہ کلاعی کے لوگ آئے اور کہا کہ جولاہوں نے ہمارا سامان چرا لیا ہے۔ نعمان نے ان جولاہوں کو کچھ دن قید رکھا پھر چھوڑ دیا۔ کلاعی لوگ پھر نعمان کے پاس آکر کہنے لگے : آپ نے جولاہوں کو چھوڑ دیا، نہ ان کا امتحان لیا نہ مارا۔ نعمان نے کہا : کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں انھیں ماروں؟ مگر دیکھو! اگر تمہاری سامان ان کے پاس نکل آیا تو خیر ورنہ میں اسی قدر تمہاری پیٹھ پر ماروں گا‘‘ وہ کہنے لگے : کیا یہ تمہارا حکم ہے۔ نعمان نے کہا : یہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب امتحان السارق بالضرب و الحبس) ١٦۔ سامان کی برآمدگی چوری کا ثبوت نہیں: حضرت ابو امیہ مخزومی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور آیا جو چوری کا اقرار کرتا تھا لیکن اس کے پاس مال نہ ملا۔ آپ نے اسے فرمایا : میں تو نہیں سمجھتا کہ تو نے چوری کی ہوگی۔ وہ کہنے لگا : ’’نہیں! میں نے چوری کی ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو لے جاؤ اس کا ہاتھ کاٹو پھر لاؤ۔ لوگ اسے لے گئے۔ پھر اس کا ہاتھ کاٹا پھر لے کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : کہو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ چنانچہ اس نے یہ دعا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یا اللہ اس کی توبہ قبول کر‘‘ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب تلقین السارق) ١٧۔ سامان کی برآمدگی چوری کا ثبوت نہیں حضرت صفوان بن امیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا پھر نماز پڑھی پھر اپنی چادر تہ کرکے سر کے نیچے رکھی اور سو گئے۔ چور آیا اور چادر ان کے سر کے نیچے سے کھینچی (ان کی آنکھ کھلی) تو دوڑ کر چوڑ کو پکڑ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے اور بتلایا کہ اس نے میری چادر چرالی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چور سے پوچھا : کیا تو نے چادر چرائی تھی؟ وہ کہنے لگا 'ہاں' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں سے کہا کہ اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ تب صفوان کہنے لگے : یارسول اللہ ! میری نیت یہ نہ تھی کہ ایک چادر کے بدلے اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ کام پہلے کرنے کا تھا‘‘(نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب مایکون حزرا ومالایکون) ١٨۔ حدقائم کرنے کی برکت:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی ملک میں اسلامی قانون کا جاری ہونا وہاں کے لوگوں کے لئے تیس دن (اور ایک دوسری روایت کے مطابق چالیس دن) بارش برسنے سے بہتر ہے۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب الترغیب فی اقامة الحد) ١٩۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص (ابوالبسر کعب بن عمرو) آپ کے پاس آکر کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !~ میں نے ایک حدی گناہ کیا ہے۔ مجھے حد لگائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ اس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو پھر وہ شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے ایک مستوجب حد گناہ کیا ہے کتاب اللہ کے مطابق مجھے سزا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ وہ کہنے لگا : پڑھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو بس اللہ نے تیرا گناہ یا تیری سزا کو معاف کردیا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب اذا اقربالحد و لم یبین ھل للامام أن یسترعلیه) حد اور اقامت کےمتعلق احادیث کا ما حصل:۔ اب ہم مندرجہ بالا احادیث کا ماحصل درج ذیل دفعات کی شکل میں پیش کرتے ہیں : ١۔ کنوارے مرد اور کنواری عورت کو سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے۔ (حدیث نمبر ٣ اور نمبر ٥) جلاوطنی سے مراد ملک بدر کرنا نہیں بلکہ اتنے فاصلہ پر بھیجنا ہے جس کو شرعی اصطلاح میں سفر کہہ سکتے ہوں۔ اور اس جلاوطنی کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ کم از کم زانی جوڑے کے ملاپ کی راہ کو ہی بند کردیا جائے اور اس کی امکانی صورتوں کو ختم کردیا جائے (حدیث نمبر ٣) اور یہ مقصد بعض علماء کے نزدیک قید میں ڈالنے سے بھی پورا ہوسکتا ہے اور اگر ایسا کوئی خطرہ موجود نہ ہو تو قاضی جلاوطنی کی سزا کو موقوف بھی کرسکتا ہے۔ لیکن سو کوڑے کی سزا بہرحال قائم رہے گی۔ گویا سو کوڑے تو اللہ کی مقرر کردہ حد ہے اور ایک سال کی جلاوطنی بطور تعزیر ہے۔ ٢۔ کوڑا ایسا ہونا چاہئے جونہ زیادہ سخت ہو کہ سو کوڑے پڑنے پر چمڑی ہی ادھیڑ ڈالے اور گوشت ننگا ہوجائے اور یہ مفہوم جلدۃ کے لغوی معنی میں شامل ہے اور نہ زیادہ نرم جس کو مجرم سزا بھی نہ سمجھے۔ بلکہ ایسا ہونا چاہئے جو نہ بالکل نیا اور سخت ہو اور زیادہ پرانا اور نرم ہو۔ ٣۔ اسی طرح کوڑے مارنے والے (جلاد) کو بھی کوڑے اتنے زور سے نہ مارنے چاہئیں کہ ایسا معلوم ہو جیسے وہ کوئی اپنا ذاتی انتقام لے رہا ہے۔ نہ وہ پیچھے سے دوڑ کر پورے زور سے کوڑے برسائے اور نہ بالکل آہستہ ہمارے جس کی مجرم کو تکلیف ہی نہ ہو۔۔ بلکہ درمیانی روش اختیار کرنا چاہئے۔ اور وہ درمیانی روش یہ ہے کہ سو کوڑے کھانے کے بعد نہ اس کا گوشت ننگا ہونا چاہئے۔ نہ ایسا ہونا چاہیے کہ وہ سو کوڑے کھانے کے بعد مرجائے یا بے ہوش ہو کر گر پڑے یا اس کے بدن کا قیمہ اڑنے لگے۔ ٤۔ کوڑے برساتے وقت چہرے اور شرم گاہ کو ضرور بچانا چاہیے۔ باقی کوڑے بھی کسی ایک ہی جگہ مثلاً سرین پر نہ مارے جائیں بلکہ بدن کے مختلف حصوں پر بانٹ کر مارے جائیں۔ مرد کو یہ سزا کھڑا کرکے اور عورت کو بٹھلا کردی جائے۔ مرد کا جسم ننگا ہو تو بھی ٹھیک ہے۔ مگر عورت کا جسم مستور ہونا چاہئے۔ البتہ بدن پر کوئی اتنا موٹا کپڑا بھی نہ ہو جو سزا کے اثر کو ہی کم یا زائل کردے۔ ٥۔سزامیں بامر مجبوری شرعی حیلہ:۔ اگر مجرم کمزور ہو تو سو کوڑوں کی تعداد بالاقساط بھی پوری کی جاسکتی ہے۔ یعنی روزانہ پچیس تیس کوڑے لگا دیئے جائیں۔ اور بہت زیادہ کمزور ہو تو جھاڑو وغیرہ جس میں سو تنکے ہوں اسے سزا دے کر حد پوری کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اگر عورت حاملہ ہو، یا نفاس میں ہو یا بچہ کو دودھ پلاتی ہو تو سزا کو اس وقت تک موخر کیا جائے گا۔ (حدیث نمبر ٤) ٦۔ سو کوڑے کی سزا کی شرائط یہ ہیں کہ مجرم آزاد ہو۔ عاقل ہو، بالغ، مجنون اور دیانہ نہ ہو۔ (حدیث نمبر ٨) ٧۔ رجم کی سزا کے لئے چند شرائط اور بھی ضروری ہیں۔ یعنی شادی شدہ ہو اور اپنی بیوی سے ہمبستری بھی کرچکا ہو۔ (حدیث نمبر ١) اور بعض علماء کے نزدیک مسلمان ہونا بھی شرط ہے اور ذمیوں پر اس کا اطلاق نہ ہوگا اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی جوڑے کو رجم کرایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی کتاب میں یہی سزا واجب تھی اور ان سے اعتراف بھی کروایا گیا تھا (حدیث نمبر ٢) ٨۔ اگرچہ حدیث نمبر ٥ میں شادی شدہ زانی یا زانیہ کی سزا سو کوڑے اور رجم دونوں ہیں۔ تاہم دور نبوی اور خلفائے راشدین میں صرف رجم پر ہی اکتفا کیا جاتا رہا ہے۔ جیسا کہ احادیث نمبر ١ تا نمبر ٤ سے ظاہر ہے۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ایک محصنہ زانیہ کو یہ دونوں سزائیں دیں۔ جمعرات کے دن اس کو سو کوڑے لگائے اور یہ فرمایا یہ سزا کتاب اللہ کے مطابق ہے اور جمعہ کے دن اسے رجم کیا اور فرمایا یہ سزا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے۔ یہ واقعہ مسنداحمد میں تفصیلاً مذکور ہے اور بخاری میں مجملاً (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رجم المحصن) ٩۔ مرد کو کھڑے کھڑے رجم کیا جائے گا مگر عورت کے لئے سینہ تک گڑھا کھود کر اس میں اسے داخل ہونے کو کہا جائے گا۔ (حدیث نمبر ٤) ١٠۔ اگر انسان سے کوئی بے حیائی کا حدی جرم ہوجائے تو اسے چاہئے کہ عدالت میں جاکر اعتراف کرنے کی بجائے اللہ کے حضور توبہ استغفار پر اکتفا کرے۔ (حدیث نمبر ١، نمبر ٤) ١١۔ اسی طرح اگرکوئی شخص کسی دوسرے کو کسی گناہ میں مبتلا دیکھ لے تو اسے اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرنا چاہئے۔ ایسا نہ کرے کہ عدالت میں یا حاکم کے پاس اس کی رپورٹ کر دے۔ یا دوسروں کو بتلاتا پھرے۔ (حدیث نمبر ١) بشرطیکہ اس جرم کا تعلق حقوق اللہ سے ہو۔ حقوق العباد سے نہ ہو۔ ١٢۔ اگر کوئی مجرم عدالت میں جاکر اپنے جرم کا اقرار کرے تو قاضی اسے یہ تلقین کرسکتا ہے۔ کہ واپس چلے جاؤ اور اللہ سے توبہ استغفار کرو اور اسے سزا دینے کااقدام نہ کرے۔ (حدیث نمبر، نمبر ٤) اسی طرح اگر کوئی مجرم عدالت میں مبہم بیان دے تو بھی قاضی اسے ایسی تلقین کرسکتا ہے۔ (حدیث نمبر ١٩) ١٣۔دورفاروقی میں حد قذف:۔ زنا کے ثبوت کے لئے چار معتبر عاقل، بالغ مسلمانوں کی شہادت ضروری ہے اور یہ گواہی صرف مردوں کی ہوگی جس میں ایک مرد کے بجائے دو عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں۔ عورتوں کی گواہی کا تعلق صرف مالی امور میں معتبر ہے۔ اور یہ شہادت صاف صاف اور واشگاف الفاظ میں ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر کسی ایک گواہ کے بیان سے بھی معاملہ مشکوک ہوگیا تو مجرم سزا سے بچ سکتا ہے کیونکہ شبہ کا فائدہ مجرم کو پہنچتا ہے۔ (حدیث نمبر ٩) اس صورت میں گواہوں کی شامت آسکتی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک تو ان گواہوں پر قذف کی حد لگائی جائے گی۔ چنانچہ دور فاروقی میں ایک ایسا واقعہ ہوا بھی تھا۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ گورنر بصرہ پر زنا کی تہمت لگائی اور تین گواہ بھی پیش کردیئے۔ ان میں سے ایک گواہ کا بیان مبہم ہونے کی بنا پر حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ تو سزا سے بچ گئے اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھیوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قذف کی حد لگائی تھی۔ اور تیسرا گواہ مبہم بیان کی وجہ سے بچ گیا تھا۔ اور دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ ان پر قذف کی حد نہیں لگے گی اور ان کی وجوہ یہ ہیں (١) یہ گواہ قذف کے مدعی بن کر نہیں آتے بلکہ زنا کے گواہ ہوتے ہیں۔ (٢) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گواہوں کو جو سزا دی تو یہ خصوصی حالات میں تھی۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور ابو بکرہ رضی اللہ عنہ میں پہلے سے چپقلش موجود تھی اور گواہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کے دوست تھے۔ (٣) اگر اس طرح زنا کے گواہوں کے ادنیٰ سے شبہ کی بنا پر مار پڑنے لگے تو کبھی کوئی شخص گواہی پر تیار نہ ہوگا۔ ہماری رائے میں دوسرے گروہ کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ تاہم ایسے بے حیائی کے مقدمات میں شہادت اور افواہوں میں دلچسپی لینے سے حتی الامکان گریز ہی کرنا چاہئے۔ اور جہاں کہیں ایسی گندگی نظر آئے بھی تو اسے نشر کرنے کی بجائے پردہ پوشی سے کام لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ١٤۔ شہادات کا بعد ثبوت جرم کا دوسرا معتبر ذریعہ ملزم کا اپنا اقرار ہے۔ مجرم اگر چار گواہیوں کے عوض چار بار اقرار کرے تو یہ بہتر ہے۔ جیسا کہ حدیث نمبر ١ اور نمبر ٤ سے معلوم ہوتا ہے۔ تاہم ایک بار کا اقرار بھی ثبوت جرم کے لئے کافی ہے۔ (حدیث نمبر ٣) ١٥۔ ثبوت جرم کا تیسرا معتبر ذریعہ حمل ہے۔ اگر عورت کنواری یا بے شوہر ہے اور اسے حمل ہوجائے تو یہ قرینہ کی معتبر شہادت ہے اور اس بنا پر سزا دی جاسکتی ہے۔ (حدیث نمبر ٤) نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ خطبہ جس کا ذکر رجم کے بیان میں گزر چکا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رجم الحبلٰي) ١٦۔ملزم کو شبہ کا فائدہ:۔ قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مجرم کے اقرار کے بعد بھی صورت حال کی پوری تحقیق کرے۔ اگر اسے کسی قسم کا شبہ پڑجائے تو وہ مجرم کو چھوڑ سکتا ہے کیونکہ مجرم کو سزا دینے میں غلطی کرنے سے اسے معاف کردینے میں غلطی کرنا بہتر ہے۔ (حدیث نمبر ٩) ١٧۔زناکاجرم قابل راضی نامہ نہیں :۔ زنا کا جرم کسی قیمت پر قابل راضی نامہ نہیں۔ نہ ہی مال و دولت یا تاوان سے کسی کی عصمت و آبرو کی سودا بازی ہوسکتی ہے۔ (حدیث نمبر ٣) ١٨۔ البتہ ایسے حدی جرائم جن کا مالی معاملات سے تعلق ہو۔ مقدمہ عدالت میں آنے سے پیشتر قابلی راضی نامہ ہوتے ہیں۔ مثلاً چور کو معاف بھی کیا جاسکتا ہے اور اس سے مسروقہ مال لے کر بھی معافی دی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بھی شرائط جو صاحب حق تسلیم کرلے اس پر راضی نامہ ہوسکتا ہے۔ (حدیث نمبر ١٧) ١٩۔اقبال جرم کےلیے سزاکی ممانعت:۔ مالی مقدمات میں اقبال جرم کرانے کے لئے ملزم کو قید تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے بدنی سزا نہیں دی جاسکتی۔ (حدیث نمبر ١٤، ١٥) ٢٠۔ مقدمہ عدالت میں آجانے کے بعد مجرم کے حق میں سفارش کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ (حدیث نمبر ٦) ٢١۔ جرم ثابت ہوجانے کے بعد قاضی حد کی سزا میں کوئی کمی و بیشی کرنے کا مجاز نہیں۔ (سورہ نور۔ آیت نمبر ٢) ٢٢۔قاضی اپنے علم کی بناپر فیصلہ نہیں دے سکتا:۔ فوجداری مقدمات میں قاضی اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں دے سکتا۔ ایسے فیصلے اسے شہادتوں کی بنیاد پر ہی کرنا ہوں گے۔ (حدیث نمبر ٧) ٢٣۔ حد جاری ہونے کے بعد مجرم اس گناہ سے بالکل پاک صاف ہوجاتا ہے۔ لہٰذ اسے برے لفظوں سے قطعاً یاد نہ کیا جائے۔ اس پر جنازہ بھی پڑھا جائے گا۔ اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ (حدیث نمبر ٤ اور نمبر ١٢) ٢٤۔زناکےدوسرےفریق کی تفتیش نہ کی جائے :۔ زنا کا ایک فریق اگر اپنے گناہ کا اقرار کرلے تو قاضی اسے یہ نہیں پوچھے گا کہ دوسرا فریق کون ہے؟ اگر اس پر پردہ پڑا ہے تو یہی بات اسلام کے مطابق ہے۔ نیز اسلامی قانون لوگوں کو سزا دینے کے لئے بے چین نہیں ہے۔ (حدیث نمبر ٤، نمبر ١) ٢٥۔ اور اقرار کرنے والا فریق دوسرے فریق کا پتہ بتلاتا ہے تو دوسرے فریق سے معلوم کیا جائے گا اگر وہ بھی اقرار کرلے تو اس پر حد جاری ہوگی۔ (حدیث نمبر ٣) اور اگر انکار کردے تو وہ بچ جائے گا۔ البتہ بعض علماء کے نزدیک پتہ بتلانے والے پر قذف کی حد بھی جاری ہوگی۔ لیکن یہ بات قاضی کی تحقیق اور صوابدید پر منحصر ہے۔ ٢٦۔ حدود جاری کرنے والے معاشرہ پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار خیرو برکات کا نزول ہوتا ہے۔ (حدیث نمبر ١٨) ٢٧۔ اگر رجم کا مجرم اقرار کے بعد اپنے اقرار سے پھرجائے یا بھاگ کھڑا ہو تو اسے مزید سزا نہیں دی جائے گی۔ (حدیث نمبر ١) ٢٨۔ عورت سے اگر بالجبر زنا کیا گیا ہو تو اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔ (حدیث نمبر ١٢) ١٩۔ حدود کے علاوہ کسی جرم کی تعزیر میں قاضی بدنی سزا دس کوڑوں سے زیادہ دینے کا مجاز نہیں۔ (حدیث نمبر ١٣) [٤]تحقیق جرم میں انتہائی نرمی:۔ مندرجہ بالا احکام و ہدایت سے واضح طور پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلامی قانون اس تلاش میں نہیں رہتا کہ کوئی مجرم ملے تو اسے سزا دے ڈالی جائے۔ بلکہ اس کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ مجرم سزا سے بچ جائے۔ پہلے تو وہ مجرم کو خود ہدایت دیتا ہے کہ اپنا جرم کسی کو نہ بتلائے بلکہ اللہ سے توبہ و استغفار کرے۔ پھر معاشرہ کے افراد کو ہدایت دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو جرم میں مبتلا دیکھ لے تو اس پر پردہ ڈالے اور کسی کے آگے بیان نہ کرے۔ پھر قاضی کو ہدایت دیتا ہے کہ مجرم کو سمجھائے اور توبہ استغفار کی تلقین کرکے اسے واپس پہنچ دے۔ پھر اس کا قانون شہادت اتنا سخت ہے کہ شاید ہی کوئی جرم شہادتوں کی بنا پر پایہ ثبوت کو پہنچتا ہو۔ قاضی کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ شہادت یا مجرم کے اقرار میں کسی طرح کاشبہ پڑ جائے یا مجرم اپنے اقرار سے منحرف ہوجائے تو اسے چھوڑ دیا جائے پھر وہ مجرم کی حالت دیکھتا ہے کہ آیا وہ سزا کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ اثبات جرم کےبعدسرعام بدنی سزاکی وجہ :۔ ان سب مراحل سے گزرنے اور جرم کے پایہ ثبوت کو پہنچ جانے کے بعد پھر جو سزا دیتا ہے۔ وہ یقیناً سخت بھی ہے اور اس کا تعلق بھی بدنی سزا سے ہوتا ہے اس وقت حد' لگانے کی حد تک تو نرمی کا برتاؤ ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ مگر مجرم پر ترس کھانے کا مطلق رو دار نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے مجرم پر ترس کھانا فی الحقیقت پورے معاشرے پر ظلم کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ”اے صاحبان عقل و خرد! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے“ (٢: ١٧٩) بالفاظ دیگر ایک شخص کو قصاص میں مار ڈالنے سے سارے معاشرہ کو جینے کا حق ملتا ہے۔ اور وہ امن و چین سے رہ سکتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی قانون حدود و قصاص اور تعزیرات کو بھی ” اللہ کا دین“ فرمایا ہے۔ کیونکہ یہ بھی اقامت دین کا ایک لازمی عنصر ہے۔ دین کا اطلاق صرف عبادات تک ہی محدود نہیں بلکہ اس لفظ کے معنی کی وسعت میں شریعت کے تمام تر احکام آجاتے ہیں۔ [٥] یعنی مجرموں کو یہ بدنی سزائیں برسر عام دی جائیں تاکہ انھیں اپنے کئے پر زیادہ سے زیادہ شرمندگی ہو۔ اور دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔ وحشیانہ سزاکاطعنہ دینے والوں کا اپناکردار:۔ اب ایسے اسلامی معاشرہ کے مقابلہ میں ان لوگوں پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے جو اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں قرار دینے میں اور اس کا پروپیگنڈہ کرنے میں اپنے پھیپھڑوں تک کا زور لگا رہے ہیں۔ انھیں صرف ایسے مجرموں پر ترس آتا ہے جو حکومت کے حامی یا اس کے رکن ہوتے ہیں۔ اور ترس اس لئے آتا ہے کہ ان کے تعاون کے بغیر ان کی حکومت چل ہی نہیں سکتی۔ جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے مجرموں نے لوٹ کھسوٹ، مار دھاڑ اور فساد کے ذریعہ لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اور جو مجرم حکومت کے مخالف ہوں ان کے لئے علیحدہ عقوبت خانے (Tarcher Cell) بنائے جاتے ہیں اور ان مجرموں کے ایسے ایسے جاں گداز روح فرسا عذاب دیئے جاتے ہیں کہ سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ اور یہ سب ظلم تنگ و تار کوٹھڑیوں میں ڈھائے جاتے ہیں کہ کسی کا دیکھنا تو درکنار کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح بسا اوقات پولیس حوالات کے دوران ملزموں کو مار مار کر ہلکان کردیتی ہے۔ اور اس کی مثال بالکل وہی ہے جیسے موجودہ دور حکومت کے مہذب لوگ دوسرا نکاح کرنا تو جرم سمجھتے ہیں مگر حرام طریقے پر بیسیوں داشتائیں اور شناسائیں رکھی ہوتی ہیں اور اسلام جو حلال طریقے سے چار بیویوں کی اجازت دیتا ہے اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔