سورة المؤمنون - آیت 78

وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں عطا فرمائیں اور سوچنے کو دل عنایت کیے مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ (٧٨)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٩] یعنی اللہ نے تمہیں آنکھیں، کان اور دل اس لیے نہیں دیئے تھے کہ تم ان سے اتنا ہی کام لو جتنا جانور لیتے ہیں۔ دیکھو تو صرف وہ چیز دیکھو جس سے تمہیں دنیوی فائدہ نظر آتا ہو۔ اور سنو تو بھی ایسی ہی بات سنو اور سوچو تو صرف اپنے کاروبار اور روزگار کی بات سوچو یا یہ فکر کرو کہ کون کون سے وسائل سے تمہاری آمدنی کے ذرائع میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آخر اللہ نے تمہیں جانوروں سے کچھ زائد قوتیں بھی عطا فرمائی ہیں ان سے تم نے کیا کام لیا ؟ اللہ نے تمہیں آنکھیں اس لئے دی تھیں کہ اپنی دنیوی ضرورتیں ہی پوری کرو مگر کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو بھی دیکھو۔ منزل من اللہ آیات کو اپنے کانوں سے غور سے سنو۔ پھر ان تمام نشانیوں میں غور و فکر کرکے معرفت الٰہی حاصل کرو۔ اور اس کا شکر بجا لاؤ۔ جانوروں کی طرح ان قوتوں کو محض دنیوی مفادات میں کھپا دینا جہاں ایک طرف اللہ کی ناشکری پر دلالت کرتا ہے وہاں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تم اپنے آپ کو جانوروں سے بھی بدتر مخلوق ثابت کر رہے ہو۔