سورة المؤمنون - آیت 70

أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ۚ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یا یہ کہتے ہیں کہ رسول مجنون ہے ؟ نہیں بلکہ وہ حق لایا ہے اور حق ان کی اکثریت کو ناگوار ہے۔“ (٧٠)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٠] انکار کی ایک تیسری وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لوگ اپنے رسول کو دیوانہ سمجھ کر اس کی باتوں کو درخور اعتناء نہ سمجھیں۔ اگر وہ اسے دیوانہ کہہ بھی دیں تو ان کے دل ہرگز اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ جب دعوت توحید کا چرچا عام ہونے لگا تو قریش سرداروں کو بہت فکر لاحق ہوگئی۔ وہ اس دعوت کو روکنے کے لئے مشورہ کی خاطر ولید بن مغیرہ کے پاس جمع ہوئے۔ ولید بن مغیرہ ابو جہل کا چچا تھا اور حرب بن امیہ کی وفات کے بعد قریش کی سیادت اسی کے ہاتھ آئی تھی۔ ولید بن مغیرہ ایک سمجھدار آدمی تھا۔ کہنے لگا اس سلسلہ میں اپنی اپنی تجاویز پیش کرو انھیں پیش کردہ تجاویز میں سے ایک سردار نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ ہم لوگوں کو کہیں گے کہ ’’وہ تو ایک مجنون آدمی ہے‘‘ یہ سن کر ولید بن مغیرہ کہنے لگا : ’’اللہ کی قسم! وہ دیوانہ نہیں ہے۔ ہم نے دیوانوں کو بارہا دیکھا ہے۔ اس کے اندر نہ دیوانوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت ہے، نہ الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ہی ان جیسی بہکی بہکی باتیں ہیں‘‘ (الرحیق المختوم ص ١٢١) (نیز رسول اور مجنون میں فرق کے لئے دیکھئے سورۃ اعراف آیت نمبر ١٨٤) [٧١] پھر جب یہ سب باتیں ناممکن ہیں۔ تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جو دعوت یہ رسول پیش کر رہا ہے وہ حق اور درست ہو، اور ان کے انکار اور بدکنے کی وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ انھیں سچی بات سے چڑ ہوگئی ہے اور وہ اپنی ضد، تعصب اور ہٹ دھرمی کی بنا پر یہ سچی بات قبول کرنے کو تیار نہیں۔