سورة البقرة - آیت 265

وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور دل کی تسکین و یقین کے لیے خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو اس پرزور دار بارش برسے تو وہ دو گنا پھل دے اگر اس پر تیز بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٨١]ربوہ کالغوی مفہوم:۔ ربوۃ ربو سے مشتق ہے جس کا معنی بڑھنا اور پھلنا پھولنا ہے اور ربوۃ سے مراد ایسی زمین ہے جس کی سطح عام زمین سے قدرے بلند ہو اور قدرے نرم ہو۔ ایسی زمین عموماً سرسبز اور شاداب ہوتی ہے۔ پنجابی زبان میں اسے میرا زمین کہتے ہیں اور وابل یا زور دار بارش سے مراد انتہائی خلوص نیت سے اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے دل کی پوری پوری خوشی سے مال خرچ کرنا ہے اور پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے جس میں یہ دونوں باتیں موجود تو ہوں، مگر اتنے اعلیٰ درجہ کی نہ ہوں۔ دونوں صورتوں میں اجر و ثواب تو ضرور ملے گا۔ مگر پہلی صورت میں جو اجر و ثواب ملے گا وہ پچھلی صورت سے بہرحال کئی گنا زیادہ ہوگا۔