سورة المؤمنون - آیت 1

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” یقیناً مؤمن فلاح پا گئے۔“ (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١]افلح کامفہوم :۔ افلح (مادہ۔۔ ف ل ح) میں تین باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (١) پھاڑنا (٢) کامیابی اور (٣) بقا (مقائیس اللغۃ) اور فلاح بمعنی کسان جو بیج بونے کے لئے زمین کو پھاڑتا، فصل پکنے پر کامیابی سے ہمکنار ہوتا اور اس سے فائدہ اٹھانے پر اپنی مراد پاتا ہے۔ گویا افلح کے معنی ایسا کامیاب ہونا ہے جو کسی کے اپنے عمل اور محنت کے نتیجہ میں ہو۔ کامیابی کےلیے مومنوں کی چھ صفات :۔ یہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور اس دور میں نازل ہوئی جب مسلمانوں کے کامیاب ہونے کا تصور بھی محال تھا اور ان پر عرصہ حیات ہی تنگ کردیا گیا تھا اور اگر اسلام لانے سے پہلے کسی مسلمان کا کوئی کاروبار یا شغل تھا بھی تو اسلام لانے کے بعد وہ ختم ہوچکا تھا۔ دوسری طرف قریش مکہ تھے جن کے ہاں مال و دولت کی ریل پیل تھی۔ تجارت ان کے ہاتھ میں تھی اور صاحب اختیار و اقتدار تھے۔ کعبہ کے متولی ہونے کی بناء پر تمام قبائل عرب ان کی عزت بھی کرتے تے اور ان سے ڈرتے بھی تھے۔ ان حالات میں ایمانداروں کی کامیابی کا اعلان جہاں مسلمانوں کے لئے ایک بشارت تھی وہاں اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک دنیا دار انسان کے نزدیک کامیابی کا جو تصور اور معیار ہے وہ تصور ہی سرے سے غلط ہے۔ دنیوی اور اخروی کامیابی کے لئے جن صفات کا ہونا لازمی ہے۔ وہ وہی چھ صفات ہیں جن کا آئندہ آیات میں ذکر ہو رہا ہے۔