ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ
پھر اپنی میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔“ (٢٩)
[٤١] یعنی دس ذی الحجہ کو قربانی کرنے کے بعد حج کرنے والے حضرات حجامت بنوائیں، ناخن کٹوائیں، نہائیں دھوئیں، اور راستے کی گرد اور میل کچیل دور کریں۔ اور احرام کھول کر عام لباس پہن لیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ احرام کھولنے کے بعد احرام کی دوسری پابندیاں تو ختم ہوجاتی ہیں مگر اپنی بیوی کے پاس جانا اس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب تک آدمی طواف افاضہ نہ کرلے۔ جس کا ذکر اسی آیت کے آخری جملہ میں ہے۔ [٤٢] یعنی جو بھی نذر کسی حاجی نے اس موقع کے لئے مانی ہو۔ اور بعض کے نزدیک نذر سے مراد وہی قربانی یا قربانیاں ہیں جن کا حاجی نے ارادہ کر رکھا ہو۔ [٤٣] بیت العتیق کےمعانی :۔عتیق کا ایک معنی ”آزاد“ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گھر پر کسی ظالم اور جابر بادشاہ کا قبضہ نہیں ہوسکتا اور ایسے حملہ آوروں کا وہی حشر ہوگا جو اصحاب الفیل کا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ یاجوج ماجوج کی یورش کے بعد بھی تاقیامت بیت اللہ کا طواف اور حج آزادانہ طور پر ہوتا رہے گا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بیت اللہ کا نام بیت العتیق اس لئے ہوا کہ اس پر کبھی کوئی ظالم غالب نہیں ہوا‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) قیامت کے نزدیک کعبہ کوگرانے والا:۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کہ (قیامت کے قریب) ایک لشکر کعبہ پر چڑھ آئے گا۔ جب وہ بیداء کے کھلے میدان میں پہنچیں گے تو سب کے سب اول سے آخر تک زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے‘‘ (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب ماذکر الاسواق) البتہ قیامت کے بالکل نزدیک ایک چھوٹی پنڈلیوں والا کالا حبشی کعبہ کو گرانے آئے گا اور وہ اسے گرا دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گویا میں کعبہ کے گرانے والے کو دیکھ رہا ہوں، ایک کالا پھڈا(قدم کے اگلے حصہ کو قریب اور ایڑیوں کو دور کر کے چلنے والا آدمی) اس کا ایک ایک پتھر اکھیڑ رہا ہے‘‘ (بخاری، کتاب المناسک، باب حرم الکعبہ) اور عتیق کا دوسرا معنی ہر وہ چیز ہے جس کے قدیم ہونے کے باوجود اس کی شرافت، نجابت اور احترام میں کوئی فرق نہ آئے۔ زندہ جاوید۔ اسی لحاظ سے کعبہ کو بیت العتیق کہتے ہیں۔ دس ذی الحجہ کو رمی الجمار، قربانی، غسل اور احرام کھولنے کے بعد بیت اللہ کا طواف کرنا ضروری ہے اور اس طواف کو طواف افاضہ یا طواف زیارت کہتے ہیں اور یہ طواف حج کا رکن ہے اور واجب ہے۔ احرام کی پوری پابندیاں اس طواف کے بعد ہی ختم ہوتی ہیں۔ اور اگر طواف کرنے والا بیمار یا لاغر ہو تو سوار ہو کر بھی طواف کیا جاسکتا ہے چنانچہ حج اور قربانی کے کچھ احکام تو سابقہ چار آیات میں مذکور ہوچکے اور کچھ آئندہ آیات میں بتلائے جارہے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہاں کچھ متعلقہ مسائل اور احادیث بھی درج کردی جائیں اور وہ حسب ذیل ہیں : حج اور قربانی کےمتعلق احادیث اور مسائل :۔ ١۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحیٰ کے دن خطبہ کے دوران فرمایا ’’ آج کے دن ہمیں پہلے نماز ادا کرنا چاہئے۔ پھر واپس جاکر قربانی کرنا چاہئے۔ جس نے اس طرح کیا وہ ہماری سنت پر چلا اور جس نے قربانی (نماز سے پہلے) کرلی۔ اس کی قربانی ادا نہیں ہوئی بلکہ اس نے اپنے گھر والوں کے لئے گوشت کی خاطر بکری کاٹی‘‘ اس پر ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ! میں نے تو نماز سے پہلے ہی ذبح کرلیا اور اب میرے پاس کوئی بکری نہیں۔ صرف ایک جذعہ (پٹھیا) ہے جو مسنہ (دوندی یا دو سال کی) بہتر ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اچھا اب وہ قربانی کرلو اور تمہارے بعد کسی کو ایسا کرنا کافی اور درست نہ ہوگا‘‘ (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الذبح بعدالصلوۃ) اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ قربانی نماز عید کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔ دوسرے اگر بکری قربانی دینا ہو تو اس کا مسنہ ہونا ضروری ہے۔ ٢۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کئے۔ میں نے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پاؤں ان کے منہ کے ایک جانب رکھے ہوئے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب من ذبح الاضاحی بیدہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (١) قربانی کا جانور خوبصورت اور موٹا تازہ ہونا چاہئے (٢) ایک شخص ایک سے زیادہ قربانیاں بھی دے سکتا ہے۔ (٣) جانور کو لٹا کر اور اسے خوب قابو کرکے ذبح کرنا چاہئے۔ (٤) ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔ (٥) اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا افضل ہے۔ ٣۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : ہم منیٰ میں تھے کہ گائے کا گوشت لایا گیا، میں نے پوچھا :’’یہ کہاں سے آیا ہے‘‘ صحابہ نے عرض کیا :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیبیوں کی طرف سے ایک گائے قربانی کی ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الاضحیة للمسافرو النساء ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (١) صاحب استطاعت کو اپنے گھر والوں کی طرف سے الگ قربانی دینا سنت ہے۔ (٢) حج کرنے والوں کو قربانی منیٰ کے مقام پر کرنا چاہئے۔ ٤۔ حضرت نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اسی مذبح میں قربانی ذبح کیا کرتے تھے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الاضحیٰ والنحر بالمصلی) یعنی منیٰ کا سارا علاقہ مذبح نہیں۔ بلکہ قربانی مذبح خانہ میں جاکر کرنا چاہئے۔ ٥۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج (١٠ ھ) کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نحر کی جگہ آئے تو تریسٹھ (٦٣) اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کئے باقی سینتیس (٣٧) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیئے جو انہوں نے نحر کئے۔ اور ان کو اپنی قربانی میں شریک کیا‘‘ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (١) دو آدمی مل کر بھی قربانی کرسکتے ہیں۔ (٢) قربانی جتنی زیادہ سے زیادہ کوئی دے سکتا ہو ١، دینا چاہئے۔ ٦۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو انسان کے عملوں میں خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں ہے‘‘ (ترمذی۔ مع تحفۃ الاحوذی ج ٢ ص ٣٥٢) ٧۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں دس سال رہے اور ہمیشہ قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی حوالہ ایضاً) ٨۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص استطاعت رکھتا ہو۔ پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الاضاحی۔ اردو ص ٣٨١ مطبوعہ مکتبہ سعودیہ، کراچی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی اگرچہ ہر مسلمان پر واجب نہیں تاہم صاحب استطاعت کے لئے سنت مؤکدہ ضرور ہے۔ ٩۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسنۃ (بکری وغیرہ جو ایک سال کی ہو کر دوسرے میں لگی ہو) کی قربانی کرو۔ البتہ جب ایسا جانور نہ مل رہا ہو۔ تو جذعہ دنبہ (جو چھ ماہ کا ہو کر ساتویں میں لگا ہو) کر لو۔ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب سن الاضحیہ) ١٠۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حجۃ الواداع) میں سو اونٹ قربانی کئے اور مجھے حکم دیا کہ ان کا گوشت بانٹ دوں۔ میں نے سارا گوشت بانٹ دیا۔ پھر آپ نے فرمایا : ان کی جھولیں بھی بانٹ دو میں نے وہ بھی بانٹ دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کھالیں بانٹنے کا حکم فرمایا، میں نے وہ بھی بانٹ دیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز قصاب کو مزدوری میں نہ دو۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب لایعطی الجزار من الہدی شیئاً) ١١۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عیدالاضحیٰ کے دن عید میں شریک ہونے کے لئے دیہات سے (محتاج) لوگ آگئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قربانی کے گوشت سے تین دن تک کے لئے رکھ لو۔ باقی خیرات کر دو۔ (تاکہ محتاجوں کو بھی کھانے کو گوشت مل جائے) بعد میں لوگوں نے عرض کیا کہ : ہم اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیں بناتے تھے اور ان میں چربی پگھلاتے تھے'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’تو اب کیا ہوا ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں نے تمہیں ان محتاجوں سے منع کیا تھا جو اس وقت موقع پر آگئے تھے۔ اب تم کھاؤ بھی، صدقہ بھی کرو اور رکھ بھی سکتے ہو‘‘ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب النھی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث و نسخہ) ١٢۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں قربانی کا گوشت توشہ کرکے مدینہ تک آئے۔ ابو سفیان نے کہا اس حدیث میں قربانی سے مراد ہدی (مکہ میں کی ہوئی قربانی) ہے۔ (بخاری، کتاب الاضاحی۔ باب مایؤکل من لحوم الاضاحی وما یتزود منہا) ١٣۔ زیاد بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔ وہ ایک شخص کے پاس آئے جس نے نحر کرنے کے لئے اپنا اونٹ بٹھایا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’اس اونٹ کو کھڑا کر اور پاؤں باندھ دے (پھرنحر کر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہی سنت ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ نحرالابل مقیدۃ) ١٤۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ’’اونٹ اور گائے (کی قربانی) میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں‘‘ (مسلم۔ کتاب الحج باب جواز الاشتراک فی الھدی ) ١٥۔ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم تہامہ کے علاقہ میں ذوالحلیفہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ وہاں ہمیں بکریاں اور اونٹ ملے ہم نے جلدی کرکے گوشت کاٹ کر ہنڈیاں چڑھا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ ہنڈیاں اوندھا دینے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس بکریاں ایک اونٹ کے برابر رکھیں۔ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ جواز الذبح بكل ما انهر الدم الا السن....) اس حدیث کو امام مسلم، کتاب الاضاحی میں درج کرکے یہ اجتہاد کیا ہے کہ اونٹ کی قربانی میں دس آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں جبکہ گائے، بیل میں صرف سات آدمی ہی شریک ہوسکتے ہیں۔ ١٦۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حالت احرام میں شكار کرے اور اسے اس کا بدلہ دينا ہو تو اس بدلہ کے جانور یا نذر کے جانور میں سے کچھ نہ کھائے۔ باقی سب میں سے کھا سکتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب ما یا کل من البدن ) ١٧۔قربانی کے جانور پر سوار ہونا تعظیم کےمنافی نہیں :۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو قربانی کا اونٹ ہانک رہا تھا (اور خود پیدل چل رہا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ’’اس پر سوار ہو جا‘‘ وہ کہنے لگا : ’’یہ قربانی کا جانور ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا : ’’ اس پر سوار ہوجا‘‘ وہ پھر کہنے لگا :’’ یہ قربانی کا جانور ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار اسے فرمایا : ’’ارے کم بخت اس پر سوار ہوجا‘‘ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب رکوب البدن) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت قربانی کے جانور پر سوار ہونا شعائر اللہ کی تعظیم کے منافی نہیں۔ ١٨۔پیدل حج کرنا کارثواب نہیں :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے دونوں بیٹوں کا سہارا لئے چل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’اسے کیا ہوا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا : ’’اس نے پیدل کعبہ کو جانے کی منت مانی ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ کو اس بات کی حاجت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو تکلیف دے‘‘ اور اسے حکم دیا کہ وہ سوار ہوجائے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب من نذر المشیۃ الی الکبعة) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیدل سفر حج کار ثواب نہیں بلکہ مکروہ کام ہے اور اگر کسی نے ایسی نیت کی بھی ہو تو اسے پورا نہ کرنا چاہئے۔ ١٩۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مزدلفہ سے منیٰ میں آئے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور کنکریاں ماریں۔ پھر اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے۔ پھر قربانی کی۔ پھر حجام سے سر مونڈنے کو کہا پہلے داہنی طرف سے پھر بائیں سے پھر وہ بال آپ نے صحابہ کو دے دیئے۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب ان السنہ یوم النحر ان يرمي ثم ينحر) یوم النحر کے کاموں کی از روئے سنت ترتیب یہ ہے پہلے رمی (٢) بعد میں قربانی (٣) پھر حجامت اور احرام کھولنا اور (٤) طواف افاضہ یا طوائف الزیارۃ تاہم ان کاموں میں تقدیم و تاخیر ہوجائے تو کچھ حرج نہیں، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : ٢٠۔ یوم النحر:۔ مناسک حج میں تقدیم وتاخیر:۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : میں نے رمی سے پہلے طواف الزیارۃ کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حرج نہیں اور ایک شخص نے کہا میں نے شام ہوجانے کے بعد رمی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کچھ حرج نہیں۔ ایک نے کہا : میں نے قربانی سے پہلے سر منڈالیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حرج نہیں۔ (بخاری۔ کتاب المناسک، باب الذبح قبل الحلق) ٢١۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یا اللہ سر منڈانے والوں کو بخش دے‘‘ لوگوں نے عرض کیا : ’’اور بال کترانے والوں کو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا : ’’یا اللہ بال منڈانے والوں کو بخش دے‘‘ لوگوں نے پھر کہا، اور بال کترانے والوں کو؟ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار سر منڈانے والوں کے لئے بخشش طلب فرمائی اور چوتھی بار فرمایا ’’اور بال کترانے والوں کو بھی‘‘ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب الحلق والتقصیر عندالاحلال) ٢٢۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ (قربانی کرنے تک) نہ حجامت بنائے اور نہ ناخن کاٹے‘‘ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب النہی من دخل علیہم شر ذی الحجۃ) ٢٣۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج کیا اور دسویں تاریخ کو ہی طواف الزیارۃ کرلیا۔ پھر ام المومنین حضرت صفیہ کو حیض آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صحبت کرنا چاہی۔ تو میں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ! وہ تو حائضہ ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’گویا اس نے ہمیں یہاں روک دیا ؟‘‘ لوگوں نے کہا ’’وہ دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کرچکی ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ پھر کیا ہے چلو نکلو‘‘ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب الزیارۃ یوم النحر) اس حدیث سے طواف الزیارۃ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ جب تک حاجی طواف الزیارۃ نہ کرلے اس کا حج مکمل نہیں ہوتا۔ نہ وہاں مکہ سے رخصت ہوسکتا ہے۔ ٢٤۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا : ’’لوگو! تم پر حج فرض ہے۔ لہٰذا حج کرو‘‘ ایک شخص (اقرع بن حابس) کہنے لگا : کیا ہر سال یارسول اللہ !؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اس شخص نے تین بار یہی سوال کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تم یہ حکم بجا نہ لاسکتے۔ لہٰذا مجھے وہاں چھوڑ دو جہاں میں تم کو چھوڑ دوں (بات کرنا بند کردوں) کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے اپنے نبیوں سے بہت سوال کئے اور ان سے بہت اختلاف کرتے رہے۔ تو جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جتنا ہوسکے اسے بجا لاؤ۔ اور جب میں کسی بات سے منع کروں تو اس سے رک جاؤ‘‘ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب توقیرہ صلی اللہ علیہ وسلم وترک اکثار سواله عما لا ضرورۃالیہ، الخ،ابن ماجہ باب اتباع السنہ آخری حدیث) قربانی کومالی ضیاع سمجھنے والے مسلمان :۔حج اور بالخصوص قربانی کے مسائل کی یہ تفصیل اس لیے دینا پڑی کہ مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ ایسے پیدا ہوچکے ہیں۔ جو کہ قربانی کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ کبھی وہ یہ کہتے ہیں کہ قربانی صرف مکہ میں ہے اور حاجیوں کے لئے ہے اور ہم لوگ جو ہر شہر اور ہر بستی میں قربانیاں کرتے ہیں ان کا کوئی حکم نہیں۔ کہیں وہ اسے گوشت اور مالی ضیاع سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی یہ درد اٹھنے لگتا ہے کہ جتنی رقم قربانیوں پر خرچ کی جاتی ہے اتنی رقم سے محتاجوں کے لئے کئی رہائشی منصوبے بنائے جاسکتے ہیں۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ جتنی رسم کسی قربانی پر صرف ہوتی ہے اتنی رقم صدقہ میں صرف کردی جائے تو بہتر ہے۔ مندرجہ بالا احادیث میں ان کی ان سب باتوں کا جواب اور تردید موجود ہے۔ ایسے لوگ دراصل مغربیت اور مغربی تہذیب سے مرعوب، اس کے شیدائی اور کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اگر قربانی سے دگنی رقم سينما بینی اور اپنی عیاشیوں پر خرچ کردیں تو وہ ان کے نزدیک مالی ضیاع نہیں ہوتا۔ لیکن قربانی میں انھیں کئی طرح کے نقصانات نظر آنے لگتے ہیں۔ بہرحال ان کے سب اقوال ''خوئے بدرا بہانہ بسیار‘‘ کا مصداق ہوتے ہیں۔ انھیں محتاجوں اور فقیروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی اور اگر بالفرض حکومت کوئی ایسا منصوبہ بنا بھی لے تو وہ خود کبھی اس فنڈ میں کچھ دینا گوارا نہ کریں گے۔ ان کی اصل غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ قربانی نہ کرنے کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کی نظروں میں بخیل اور ''چور'' نہ سمجھے جائیں۔ (ایسے لوگوں کے دلائل کی تفصیل اور ان کی تردید کے لئے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت حصہ سوم)