وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
” اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ وہ تمہارے پاس ہر دوردراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔“ (٢٧)
[٣٥] جب کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان عام کردو کہ وہ حج کے لئے یہاں آئیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے یہاں میری آواز کون سنے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اعلان کردو۔ آواز پہنچا دینا میرا کام ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر پکارا : لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ لہٰذا حج کو آؤ۔ اور اللہ نے یہ آواز ہر اس شخص اور اس روح تک پہنچا دی جس کے لئے حج مقدر تھا اور اس کی روح نے اس اعلان پر لبیک کہا۔ [٣٦]ضامر کا لغوی مفہوم:۔ یہاں ضامر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ضامر وہ جانور ہے جو خوراک کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سدھارنے اور مشن کی کثرت اور کسرت کی وجہ سے دبلا پتلا اور چھریرے بدن والا ہوجائے اور سبک رو، یا سبک خرام ہو تاکہ مقابلہ میں آگے نکل سکے۔ اور جانور بھوک کی کمی کی وجہ سے دبلا ہو اسے عجف کہتے ہیں۔ عرب میں ضامر کا لفظ عموماً اونٹ کے لئے مختص ہوگیا خواہ وہ نر ہو یا مادہ اور اونٹ کا نام بطور خاص اس لیے لیا گیا کہ اس زمانہ میں اور اس علاقہ میں اونٹ ہی آمدورفت اور نقل و حرکت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔