إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
” جن لوگوں نے کفر کیا اور جو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور اس مسجد حرام کی طرف آنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے جس میں مقامی اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں۔ مسجد میں جو بھی گمراہی اور ظلم کا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب دیں گے۔“ (٢٥)
[٣٠]مسلمانوں پرکعبہ میں داخلہ کی پابندیاں فتح مکہ تک قائم رہیں: مراد کفار مکہ ہیں، جنہوں نے مسلمانوں پر یہ پابندیاں لگا رکھی تھیں کہ وہ نہ بیت اللہ میں نماز ادا کرسکتے ہیں۔ نہ طواف کرسکتے ہیں اور نہ حج و عمرہ کے ارکان بجا سکتے ہیں۔ ایک تو وہ خود مشرک اور کافر تھے۔ کعبہ کو بھی بتوں کی نجاستوں سے بھر رکھا تھا۔ پھر مزید یہ کہ توحید پرستوں پر سب راہیں مسدود کر رکھی تھیں۔ چودہ سو مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں عمرہ کرنے آئے۔ تو ان سے جنگ کی ٹھان لی۔ اور حدیبیہ کے مقام تک پہنچ کر ان سے عمرہ کرنے سے روک دیا گیا اور مسلمانوں پر یہ پابندیاں فتح مکہ تک بدستور بحال رہیں۔ فتح مکہ کے بعد جب کفر کا زور ٹوٹ گیا تو یہ پابندیاں از خود ہی ختم ہوگئیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق ہی ارشاد ہوا ہے کہ آخرت میں انھیں دردناک عذاب کا مزا چکھنا ہوگا۔ [٣١] یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور باہر سے آنے والے لوگوں کو برابر کے حصہ دار قرار دیا ہے۔ اور آیا ان حقوق کا اور ان کی برابری کا تعلق صرف بیت الحرام یا کعبہ سے ہے یا پورے حرم مکہ سے۔ جہاں تک صرف بیت اللہ کا تعلق ہے اور اس میں نماز، طواف اور ارکان حج بجا لانے کا تعلق ہے تو اس میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات کے اس حق عبادت میں کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ اہل مکہ کو قطعاً یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ بیرونی حضرات کو حرم میں داخل ہونے، نمازیں ادا کرنے، طواف کرنے یا ارکان حج و عمرہ بجا لانے سے روکیں۔ کیونکہ اس حق میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات سب برابر کے حصہ دار ہیں۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس حق کا تعلق پورے حرم مکہ سے بھی ہے یا نہیں؟ یعنی کیا پورے حرم مکہ کے دروازے باہر سے آنے والے حضرات کے لئے کھلے رہنے چاہئیں کہ وہ جب چاہیں حرم مکہ کے اندر جس جگہ چاہیں آکر ڈیرے ڈال دیں اور رہیں سہیں اور ان سے کوئی کرایہ وغیرہ بھی وصول نہ کیا جائے؟ اور اس اختلاف کی وجہیں دو ہیں۔ ایک یہ ارکان حج میں سے بیشتر کا تعلق صرف بیت اللہ سے نہیں بلکہ حرم مکہ سے ہے۔ صفا، مروہ، منیٰ، مزدلفہ، عرفات، مشعرالحرام سب بیت اللہ کی حدود سے باہر ہیں جبکہ حرم مکہ میں داخل ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود بعض مقامات پر مسجد الحرام کا ذکر کرکے اس سے حرم مکہ مراد لیا ہے۔ مثلاً ارشاد باری ہے : حرم مکہ میں بیرونی مسافروں کےحقوق:۔﴿ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ (۱۹۶:۲) یعنی یہ رعایت اس شخص کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی شخص مسجد الحرام کے اندر رہائش پذیر نہیں ہوتا۔ یہاں لازماً مسجد الحرام سے مراد حرم مکہ ہی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّـهِ ﴾(۲۱۷:۲) ’’مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا ماہ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے‘‘ پھر اس سے اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حرم میں زمین اور مکان کی خرید و فروخت اور اس سے آگے ان کی ملکیت و وراثت بھی جائز ہے یا نہیں۔ اور یہ بات تو احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوق ملکیت و وراثت اور حقوق بیع و اجارہ قائم تھے جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے اور اسلام نے انھیں منسوخ نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد عقیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر قبضہ کرلیا۔ پھر اسے بیچ بھی دیا۔ چنانچہ حجۃ الوادع کے دوران آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں قیام فرمائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عقیل نے ہمارے لئے مکان چھوڑا کب ہے کہ اس میں رہیں۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب توریث دور مکہ و بیہا شرائھا ) حرم مکہ میں جائیداد کی خرید وفروخت کا جواز:۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں نافع بن عبدالحارث نے مکہ میں صفوان بن امیہ سے ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لئے اس شراط پر خریدا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس خریداری کو منظور کریں گے تو بیع پوری ہوگی۔ بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار کرایہ کے مل جائیں گے۔ (بخاری۔ کتاب فی الخصویات۔ باب الربط والحبس فی الحرم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم میں مکانوں کی خرید و فروخت بھی جائز ہے اور کرایہ لینا بھی۔ ان سب امور کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور منیٰ میں مکانوں کا کرایہ نہ لینا مستحب ہے۔ تاہم اس کے جواز سے انکار مشکل ہے۔ اور امام بخاری کا اپنا موقف یہ ہے کہ حرم مکہ میں مکانوں کی خریدو فروخت اور وراثت وغیرہ سب کچھ جائز ہے جیساکہ عنوان باب توریث دور مکہ و بیعہا و سزانہارسے معلوم ہو رہا ہے۔ [٢٣] یعنی جو شخص جان بوجھ کر مکہ میں بےدینی یا شرارت کی کوئی بات کرے گا یا اس کے احترام کو ملحوظ نہیں رکھے گا جو اس کو کسی دوسرے مقام پر یہی جرائم کرنے کی نسبت سے دوگنی سزا ملے گی۔ مکہ کی حرمت کے پیش نظر وہاں جو کام کرنے ممنوع ہیں وہ ہیں۔ حرم مکہ میں کون کون سے کام کرنا ممنوع ہیں:۔ حرم مکہ کو اللہ نے امن کی جگہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا وہاں : ١۔ نہ وہاں فوج کشی جائز ہے نہ بدال و قتال حتیٰ کہ بلاضرورت کوئی ہتھیار اٹھانا بھی ممنوع ہے۔ اگر کوئی مجرم بھی حرم میں پناہ لے لے تو جب تک حرم میں ہے۔ اس سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ ٢۔ حرم مکہ کے جانور بھی محفوظ و مامون ہیں۔ نہ ان کا شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ انھیں شکار کے لئے ہانکا جاسکتا ہے۔ البتہ موذی جانور کو حرم میں بھی مارنے کی اجازت ہے۔ ٣۔ حرم مکہ کے پودے درخت اور گھاس وغیرہ بھی محفوظ و مامون ہیں۔ البتہ بعض اقتصادی ضروریات کے پیش نظراذخر گھاس کاٹنے کی اجازت دی گئی۔ ٤۔ حرم مکہ سے کوئی گری پڑی چیز بھی اٹھانا روا نہیں۔ الایہ کہ اٹھانے والا مالک کو پہنچانتا ہو اور وہ اسے پہنچا دے۔ مندرجہ بالا امور میں پیشتر کام ایسے ہیں جو دوسرے مقامات پر کرنے جائز ہیں مگر حرم مکہ میں کعبہ کی حرمت کی وجہ سے کرنے جائز نہیں۔ پھر ایسے کام مثلاً الحاد، بےدینی اور شرارت کے کام جو دوسرے مقامات پر بھی ممنوع ہیں انھیں اگر حرم مکہ میں کیا جائے تو یہ جرم کتنا شدید ہوجائے گا ؟ پھر اس نسبت سے اس کی سزا میں بھی اضافہ ہوگا۔