لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ
اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا اور بھی الٰہ ہوتے تو دونوں کانظام بگڑ جاتا۔ بس عرش کا مالک ” اللہ“ ان باتوں سے مبرّا ہے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ (٢٢)
[١٨] اگر اللہ کے سوا اور بھی الٰہ ہوں توکائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے :۔ بڑی موٹی سی بات ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ ایک اقلیم کے دو فرمانروا نہیں ہوسکتے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی ادارہ اس وقت تک چل ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کا کرتا دھرتا صرف ایک شخص نہ ہو۔ جبکہ ایک گھر تک کا بھی انتظام اس وقت تک چل نہیں سکتا جب تک کہ سربراہ ایک نہ ہو۔ اور اگر میاں بیوی میں بھی اقتدار کی جنگ ہو تو اس کا نظام بھی تباہ و برباد ہوجائے گا۔ پھر اس عظیم کارخانہ کائنات کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے سربراہ ایک سے زیادہ ہوں؟ چونکہ یہ ایسی عام مثال ہے جس سے ہر شخص کو سابقہ پڑتا ہے۔ لہٰذا اس کے مختلف پہلوؤں پر ہر شخص خود بھی غور کرسکتا ہے یہاں تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے۔ جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ایک بادشاہ نے اپنے تحت بے شمار امیر وزیر رکھے ہوتے ہیں۔ جو تدبیر مملکت میں اس کی مدد کرتے ہیں اور وہ اس کے محکوم ہی ہوتے ہیں۔ اس کے برابر کی چوٹ نہیں ہوتے یہی صورت ہمارے معبودوں کی ہے۔ اللہ نے کچھ برگزیدہ ہستیوں کو کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ جو اس کے محکوم اور اس کے بندے ہی ہیں۔ تاہم اللہ نے انھیں بھی کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ اس دلیل میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی معرفت کو سمجھا ہی نہیں۔ بادشاہ ایک عاجز مخلوق ہے۔ وہ خود نہ ہر ایک کی فریاد سن سکتا ہے اور نہ سالمیت کا انتظام چلا سکتا ہے۔ اسے مددگاروں کی احتیاج ہے، ان کے بغیر اس کا کام چل ہی نہیں سکتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ایسی تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ اسے کسی طرح کے مددگاروں کی ضرورت نہیں۔ وہ ہر ایک کی فریاد خود سنتا ہے اور قبول کرتا ہے اور سارے نظام کائنات کو خود ہی چلا رہا ہے اور ان کاموں کے لئے اسے کسی کی۔۔ احتیاج نہیں ہے اور جو فرشتے مدبرات امر ہیں۔ انھیں بھی کچھ اختیارات تفویض نہیں کئے گئے بلکہ وہ اللہ ہی کے حکم کے پابند اور اس حکم کے سامنے مجبور و بے بس ہوتے ہیں۔