سورة الأنبياء - آیت 16

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کوئی کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ (١٦)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٤] دنیا کس لحاظ سے کھیل تماشاہے ؟ دنیا دار اور اللہ کی یاد سے غافل انسان ہمیشہ یہی سمجھتے رہے ہیں کہ یہ دنیا بس ایک کھیل تماشا ہے۔ ہم یہاں عیش و عشرت کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے یہاں ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ جتنی عیش و عشرت اپنے لئے مہیا کرسکتا ہے اور جس طرح کرسکتا ہے، کرلے۔ گویا دنیا دار لوگوں کا منتہائے مقصود ہی یہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے بھی دنیا کو متعدد مقامات پر کھیل تماشا قرار دیا ہے مگر یہ بات صرف اس پہلو سے کہ یہ چند روزہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایک کھیل تماشا کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ تھوڑی مدت بعد فنا ہوجانے والی ہے اور آخرت کی زندگی دائمی اور پائیدار ہے لہٰذا تمہیں اپنی تمام تر توجہ دنیا پر مرکوز کرنے کے بجائے آخرت پر مرکوز کرنا چاہئے۔ یہاں اس مقام پر صرف دنیا کی زندگی پر نہیں بلکہ کائنات کے پورے نظام کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ یہ کچھ کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ جس میں اس دنیا کی زندگی بھی شامل ہے جو زمین و آسمان ہی کے سہارے قائم ہے۔ اور انسان کی تمام ضروریات زمین، ہوا، سورج اور بادلوں وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ زمین میں اشرف المخلوقات یعنی انسان کو پیدا کیا تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ اسے کھیل تماشا سمجھتے ہوئے جیسے چاہے یہاں زندگی گزار کر یہیں سے رخصت ہوجائے اور اس سے کچھ مواخذہ نہ ہو۔ خالق کائنات بسی یہی تماشا دیکھتا رہے کہ اس دنیا میں لوگ کیسے ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اور وہ بس دیکھ کر اسے محض تفریح طبع کا ہی سامان سمجھتا رہے۔ جیسا کہ رومی اکھاڑے میں ہوتا تھا کہ انسانوں کا درندوں سے مقابلہ کرایا جاتا تھا اور درندے جس انداز سے انسانوں کو پھاڑ کھاتے تھے۔ بادشاہ اور اس کے درباری یہ منظر دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ اور یہ ان کی تفریح طبع کا سامان تھا۔ ایسی بات ہرگز نہیں۔ اگر اللہ کو محض تفریح طبع ہی منظور ہوتی تو اس کے کئی اور بھی طریقے ہوسکتے تھے جن میں ظلم و جور کا نام و نشان تک نہ ہوتا نہ ہی انسان جیسی کوئی ذی شعور اور صاحب ارادہ و اختیار کوئی مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔