سورة طه - آیت 96

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اس نے جواب دیا میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں کو نظر نہ آئی پس میں نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی اٹھالی اور اس کو ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے ایسا ہی سمجھایا۔“ (٩٦)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٦] سامری سے سوال وجواب:۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے پھر اپنے بھائی ہارون سے مخاطب ہونے کے بعد اب سامری سے مخاطب ہوئے اور پوچھا : بتلاؤ سامری! یہ کیا معاملہ ہے؟ واضح رہے کہ قرآن نے یہاں خطب کا لفظ استعمال کیا ہے جو کسی ناگوار صورت حال کو دریافت کرنے کے لئے آتا ہے۔ نیز یہ سامری اگرچہ بظاہر سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آیا تھا۔ مگر وہ ایک منافق اور فتنہ پرداز اور ہوشیار انسان تھا جو کفر و شرک کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا۔ وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی کھل کر مخالفت تو کر نہ سکتا تھا مگر اس تاک میں رہتا تھا کہ کوئی موقع ملے تو قوم کو پھر سے اپنے آبائی دین یعنی گؤسالہ پرستی کی طرف لے جائے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں اسے ایسا موقع میسر آگیا تھا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے سوال پر کہنے لگا : بات یہ ہے کہ میں نے ایک ایسی چیز دیکھ لی تھی جسے دوسرے نہیں دیکھ سکتے تھے اور وہ یہ تھی کہ فرعون کی موت کے وقت جب جبریل آئے تھے تو میں نے ان کی آمد کو محسوس کرلیا تھا اور ان کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی تھی۔ جب میں نے بچھڑے کی شکل بنائی تو اس میں یہ مٹی بھر دی تھی۔ یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب بچھڑا تیار کیا گیا تو اس میں سے بچھڑے کی سی آواز بھی آنے لگی اور یہ سب کچھ میں نے اس لئے کیا کہ میں اس مٹی کی کچھ کرامت دیکھنا چاہتا تھا۔ سامری کےبیان کی حقیقت :۔ یہ تو تھا سامری کا وہ بیان جو اس نے موسیٰ علیہ السلام کے سوال کے جواب میں دیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس کا یہ بیان بھی فریب کاری پر مشتمل تھا۔ وہ صرف یہی نہیں چاہتا تھا کہ پھر سے بت پرستی اور گؤسالہ پرستی کو فروغ دے بلکہ حقیقتاً وہ موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں خود لیڈر بننا چاہتا تھا۔ آدمی ہوشیار تھا۔ سیدنا ہارون علیہ السلام کو کمزور دیکھ کر اس نے اپنی ہشیاری سے اپنے لئے میدان ہموار کرلیا تھا۔ یعنی سامری کا اصل مقصد سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں اپنی لیڈری چمکانا تھا۔ اور اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی راہ اور اغراض و مقاصد سے اس کی راہ جدا گانہ ہو لہٰذا اس نے قوم کو اسی پرانی گؤسالہ پرستی کی راہ پر ڈال دیا جس سے وہ پہلے ہی مانوس تھے اور اس کے دلدادہ تھے۔ اس طرح وہ فی الواقع سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم کا لیڈر بن گیا تھا۔ اور یہی بات سیدنا ہارون علیہ السلام کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے۔ اگر سیدنا ہارون علیہ السلام اس شرک کو روکنے میں سختی سے کام لیتے تو قوم دو دھڑوں میں بٹ جاتی اور ان میں خانہ جنگی بپا ہوجاتی پھر حالات قابو سے باہر ہوجاتے۔ بعض علماء نے یہاں رسول سے مراد خود موسیٰ علیہ السلام لئے ہیں۔ اس صورت میں یہ جواب سامری کی انتہائی مکاری پر دلالت کرتا ہے، کہ اس طرح اس نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی خوشامد کرکے انھیں بھی اپنے حق میں نرم کرلینے کی ایک کوشش کی تھی۔ قرآن کریم کے انداز سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ سامری کا یہ بیان سب اس کے اپنے مکروفریب پر مشتمل تھا۔ رہی یہ بات کہ بچھڑے میں آواز کیسے پیدا ہوگئی تھی۔ تو یہ بات بھی چنداں مشکل نہ تھی۔ جب اس بچھڑے کے کھلے ہوئے منہ سے ہوا آر پار ہوتی تو اس سے بچھڑے کی سی آواز آنے لگتی تھی۔ جیسے باجا میں منہ سے پھونک مارنے سے مختلف قسم کی آوازیں نکلنے لگتی ہیں یا جیسے برقی گھنٹی کا سوچ دبانے سے اس سے مختلف قسم کی گھنٹیوں سے مکتلف قسم کی اوازیں آتی ہیں۔ اور ان مختلف آوازوں کا تعلق باجے اور برقی گھنٹی کی اندرونی ساخت سے ہوتا ہے۔ اسی طرح سامری نے بچھڑے کے جسم کے اندر پترے اس ترتیب سے رکھ دیئے تھے کہ جب ہوا اس کے جسم سے آر پار گزرتی تو وہ آواز نکالنے لگتا تھا۔