قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي
ہارون نے جواب دیا اے میری ماں کے بیٹے میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ کھینچو مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ آپ آکر کہیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا۔“
[٦٥]سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام کامکالمہ :۔ سیدنا ہارون علیہ السلام اگرچہ عمر میں بڑے تھے تاہم منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔ علاوہ ازیں سیدنا موسیٰ علیہ السلام جلالی طبیعت کے مالک اور سخت جوش غضب میں تھے۔ لہٰذا اسی کا غضب سے مغلوب ہو کر سیدنا ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بالوں کو پکڑا تھا۔ سیدنا ہارون علیہ السلام بڑے تحمل سے کہنے لگے کہ پہلے میری بات سن لو اور میری داڑھی پکڑ کر دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دو۔ بات یہ تھی کہ جب یہ لوگ شرک میں مبتلا ہوئے تو میں نے انھیں پوری سختی سے روکا تھا۔ لیکن چونکہ اکثریت اس شرک میں مبتلاتھی لہٰذاانہوں نے مجھے دبا لیا اور مجھے جان سے مار ڈالنے کے درپے ہوگئے تھے اور ان میں اکثر میرے دشمن بن گئے تھے۔ اب اگر میں اس معاملہ میں مزید سختی اختیار کرتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان میں خانہ جنگی چھڑ جاتی، پھر ان کی اصلاح کی کوئی بھی صورت باقی نہ رہ جاتی۔ لہٰذا مجھے بھی تمہاری ہی انتظار تھی کہ اب ان لوگوں کا کیا علاج کیا جانا چاہئے۔