فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَن لَّا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَىٰ
پس جو شخص اس پر ایمان نہیں لاتا اور وہ اپنی خواہش کا بندہ بن گیا ہے وہ آپ کو قیامت کی سوچ سے نہ روک دے۔ ورنہ آپ ہلاکت میں پڑجائیں گے۔“ (١٦)
[١٢] اور پانچویں یہ بات کہ جو شخص روز آخرت پر ایمان نہیں لاتا اور اس کا ذہن اللہ کے سامنے جوابدہی کے تصور سے خالی ہوتا ہے وہ اپنی خواہشات کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ دنیا کی دلچسپیوں اور دل فریبیوں میں ایسا مستغرق ہوتا ہے کہ اسے اللہ کبھی بھولے سے یاد نہیں آتا۔ لہٰذا تم ایسے لوگوں کی صحبت سے پرہیز کرو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے ساتھ تمہیں بھی لے ڈوبیں۔ یہ تھیں وہ بنیادی تعلیمات جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت کے آغاز میں ہی بتلا دی گئیں اور یہ پانچویں ہدایت بالخصوص اس لئے دی گئی کہ آپ ایک جابر، سرکش اور دنیا پرست حکمران کے پاس اللہ کا پیغام لے کر جانے والے تھے اور اس کام کے لئے ایسی استقامت اور ثابت قدمی کی ضرورت تھی جو اقامت دین کے لئے ضروری ہے۔