سورة مريم - آیت 71

وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جوجہنم پر وارد نہ ہو یہ ایک طے شدہ فیصلہ ہے جسے پورا کرنا آپ کے رب کے ذمہ ہے۔ (٧١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٥] پل صراط سے ہر ایک کو گزرنا ہے :۔ یعنی ہر شخص کو خواہ وہ مسلم ہو، کافر، نیک ہو یا بد ایک دفعہ ضرور جہنم کے کنارے لا کھڑا کیا جائے گا اور یہ اللہ کی طرف سے ایسی طے شدہ بات ہے جس کا کبھی خلاف نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : (١) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سب لوگ دوزخ پر پہنچیں گے پھر اپنے اپنے اعمال کے لحاظ سے واپس ہوں گے۔ پہلا گروہ تو بجلی کی چمک کی طرح نکل جائے گا، دوسرا ہوا کی طرح، تیسرا گھڑ سوار کی طرح، چوتھا اونٹ کی طرح، پانچواں دوڑنے والے کی طرح اور چھٹا جیسے آدمی پیدل چلتا ہو‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) (٢) اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ پل صراط کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ ایک پل ہے جسے جہنم کی پشت پر رکھیں گے۔ یہ پل پہلوان کے گرنے کا مقام ہے۔ اس پر سنسیاں ہیں۔ آنکڑے ہیں، چوڑے چوڑے کانٹے ہیں، ان کا سرخم دار سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوگا جو نجد کے ملک میں ہوتے ہیں۔ مسلمان اس پر سے پلک جھپکنے کی طرح، بجلی کی طرح، آندھی کی طرح، تیز گھوڑوں کی طرح اور سانڈنیوں کی طرح گزر جائیں گے۔ بعض صحیح و سلامت وہاں سے بچ کر نکل جائیں گے اور کچھ زخمی ہو کر اور چھل چھلا کر اور بعض دوزخ میں گر پڑیں گے۔ آخری شخص جو پل صراط سے پار ہوگا اسے کھینچ کھینچ کر پار کریں گے۔ پھر جو لوگ خود نجات پاجائیں گے وہ ان دوزخ میں گرے ہوئے مسلمانوں کے لئے اللہ سے مطالبہ اور تقاضا کرنے لگیں گے حتیٰ کہ جس کے دل میں رائی بھر بھی ایمان ہوگا اللہ اسے دوزخ سے نکال لے گا۔ بشرطیکہ اس نے اللہ سے شرک نہ کیا ہو۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ ۔۔۔ طویل حدیث سے اقتباس) ورود سے مراد دخول نہیں :۔ بعض روایات میں وارد کے معنی دخول لئے گئے ہیں یعنی ہر شخص کو کم از کم ایک دفعہ ضرور جہنم میں داخل ہونا ہوگا۔ یہ بات درست نہیں۔ ایک تو ایسی روایات سندا ً ناقابل اعتماد ہیں۔ دوسرے خود قرآن کریم اور بہت سی صحیح احادیث کے خلاف ہیں اور تیسرے لغوی لحاظ سے بھی یہ مفہوم غلط ہے۔ ورود کا معنی کسی جگہ پر جا پہنچنا ہے۔ اس میں داخل ہونا نہیں۔ (اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٧٧ ملاحظہ فرمائیے)