أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِن دُونِي أَوْلِيَاءَ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا
” تو کیا کفار نے خیال کر رکھا ہے کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کا اپنا کار ساز بنا لیں۔ ہم نے ایسے کافروں کی مہمانی کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔“
[٨٤] یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جسے مخاطب کے فہم پر چھوڑ دیا گیا ہے یعنی کافروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو کارساز بنا لیں تو وہ انھیں اللہ کی گرفت سے بچا سکیں گے بات یوں نہیں بلکہ ہم ایسے کافروں کی جہنم کی آگ سے مہمانی کریں گے جو ان کے وہاں پہنچتے ہی انھیں مل جائے گی۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے اس آیت میں عبادی کے لفظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ایسے کارساز مراد ہیں جو ذوی العقول ہوں جیسے فرشتے، جن، نیک یا بد ارواح، فوت شدہ انسان، پیغمبر یا پیران طریقت اور اصطلاحی اولیاء اللہ وغیرہم۔ کیونکہ بے جان اشیاء مثلاً بتوں اور حجرو شجر وغیرہ پر لفظ عبد کا اطلاق نہیں ہوتا۔