قَالَ هَٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي ۖ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ ۖ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا
ذوالقرنین نے کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو زمین بوس کردے گا اور میرے رب کا وعدہ سچاہے۔“ (٩٨)
[٨٠] جب یہ دیوار تعمیر ہوگئی تو ذوالقرنین نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ جس نے یہ دیوار بنانے اور لوگوں کو آئے دن کی پریشانیوں سے نجات دلانے کی توفیق بخشی مگر ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیوار اگرچہ بہت مضبوط اور مستحکم ہے مگر یہ لازوال نہیں جو چیز بھی بنی ہے بالآخر فنا ہونے والی ہے جب تک اللہ کو منظور ہے قائم رہے گی اور ’’وعدے کے وقت‘‘ سے مراد یا تو اس دیوار کی تباہی کا وقت ہے یا اس سے مراد قیامت ہے جب کہ ہر چیز ہی فنا ہوجائے گی جیسا کہ اس کے بعد والی آیت سے اسی دوسرے مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ [٨١] ذوالقرنین کے خصائل :۔ اس آیت پر ذوالقرنین کا ان لوگوں سے خطاب بھی ختم ہوجاتا ہے اور قصہ ذوالقرنین بھی۔ اس میں محض کفار مکہ کے سوال کا جواب ہی نہیں دیا گیا بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ ذوالقرنین ایک بہت بڑا فاتح اور شان و شوکت والا بادشاہ ہونے کے باوجود توحید اور آخرت کا قائل تھا۔ عدل و انصاف کے علاوہ فیاضی سے کام لیتا تھا۔ نرمی کا برتاؤ کرتا تھا تمہاری طرح کم ظرف نہ تھا کہ معمولی قسم کی سرداریاں پاکر اکڑے بیٹھے ہو اور دوسروں کو حقیر سمجھتے ہو۔