هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ اور فرشتے بادلوں کے سائے میں آئیں اور فیصلہ انتہا کردیا جائے اور اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں
[٢٧٨] یعنی ایسی نشانی کے انتظار میں جس سے انہیں قطعی اور حتمی طور پر ہر بات کا یقین آ جائے۔ ایسا یقین جیسے ہر انسان کو یہ یقین ہے کہ اسے موت آ کے رہے گی تو اسے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جب ایسی نشانی آ جائے گی تو پھر ایمان لانے کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔ ایمان لانے کی قدر و قیمت تو صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ امور غیب حواس ظاہری سے پوشیدہ ہیں۔ اگرچہ ان کے لیے بے شمار دلائل موجود ہیں اور اسی بات میں انسان کی آزمائش کی جا رہی ہے، اور یہ دنیا آزمائش گاہ بنی ہوئی ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے اور جب کوئی حتمی علامت جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا وقت موت یا قیامت آ گئی تو پھر یہ معاملہ ہی ختم ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں اللہ کی آمد تو درکنار اس کا دیدار تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اوالوالعزم پیغمبر بھی نہ سہار سکے تھے۔ پھر یہ بے چارے کس کھیت کی مولی ہیں اور فرشتے انسانوں کے پاس آتے تو ہیں مگر وہ یا عذاب الٰہی لے کر آتے ہیں یا پھر موت کا پیغام لے کر، تو پھر ان باتوں کا انہیں کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔