سورة الإسراء - آیت 97

وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ ۖ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا ۖ مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے گمراہ کر دے اس کے لیے اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوگا اور قیامت کے دن ہم انھیں ان کے چہروں کے بل اندھے، گونگے اور بہرے کرکے اٹھائیں گے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب جہنم کی آگ بجھنے لگے گی ہم اسے ان پر مزید بھڑکا دیں گے۔“ (٩٧)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٥] اعمال اور ان کے بدلہ میں مماثلت :۔ انسان کے اعمال اور ان اعمال کی جزاء و سزا میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے اور یہی مماثلت قیامت کے دن اپنا اصل روپ دھار لے گی۔ مثلاً جن لوگوں نے اس دنیا میں سیدھی راہ کے بجائے غلط راستے اختیار کیے اور راست روی کے بجائے الٹی چال چلتے رہے انھیں وہاں بھی الٹی چال چلایا جائے گا۔ اس دنیا میں وہ پاؤں کے بل چلتے تھے قیامت کے دن انھیں چہروں کے بل چلا کر پیش کیا جائے گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے پوچھا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسے ہوگا ؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”اللہ اگر پاؤں کے بل چلا سکتا ہے تو وہ چہروں کے بل بھی چلانے پر قادر ہے‘‘ (بخاری، کتاب الرقاق باب، کیف الحشر) اسی طرح جن لوگوں نے اس دنیا میں حق بات کو سننا بھی گوارا نہ کیا ہوگا وہ وہاں فی الواقع بہرے بنا دیئے جائیں گے اور جن لوگوں نے زبان سے حق بات کہنے یا اس کی شہادت دینے سے انکار کیا تھا وہ اس کی سزا میں گونگے بنا دیئے جائیں گے اور جن لوگوں نے کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے اور ان میں غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی تھی وہاں انھیں اس جرم کی پاداش میں انھیں اندھا کردیا جائے گا۔ پھر اس حال میں انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور انھیں ایسا مسلسل اور دائمی عذاب ہوگا جس میں نہ کمی واقع ہوگی اور نہ کوئی وقفہ پڑے گا۔