سورة الإسراء - آیت 37

وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک تو نہ زمین کو پھاڑ سکے گا اور نہ اونچائی میں پہاڑوں تک پہنچ پائے گا۔“ (٣٧) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٧] متکبرانہ چال سخت مذموم ہے اور اس اصل میں استثناء :۔ متکبرانہ چال اللہ تعالیٰ کو سخت ناگوار ہے اور جو انسان، اکڑ اکڑ کر، گال پھلا کر اور اور اپنے تہبند کو زمین پر گھسٹتے ہوئے چلتا ہے۔ اللہ ایسے انسان کو دنیا میں ضرور سزا دیتا ہے مثل مشہور ہے کہ ’’غرور کا سر نیچا‘‘ تو اس کا سر نیچا ہو ہی جاتا ہے۔ متکبر ہونا صرف اللہ کو سزاوار ہے اور کسی کو یہ صفت زیبا نہیں۔ انسان کی چال میں انکساری اور وقار ہونا چاہیے لیکن ایسی بھی نہ ہو کہ انسان حقیر اور ذلیل معلوم ہو بلکہ چال میں میانہ روی کی روش اختیار کرنا چاہیے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ ﴾(۱۹:۳۱) یعنی اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور فرمایا : ﴿ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا ﴾(۶۳:۲۵)(جو لوگ زمین پر انکساری کے ساتھ چلتے ہیں) یہاں ھَوْن کا لفظ فرمایا جس میں انکساری اور وقار دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ھُوْن نہیں فرمایا جس کا معنی ذلت اور حقارت ہوتا ہے۔ اس کلیہ میں بھی ایک استثناء کا مقام ہے اگر کفار کے سامنے مظاہرہ مقصود ہو تو اس وقت اکڑ کر چلنا ہی اللہ کو پسند ہے۔ جنگ احد میں سب صحابہ کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کو عنایت فرمائی تو وہ کافروں کے سامنے اکڑ اکڑ کر چلنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چال اللہ کو پسند نہیں مگر اس وقت پسند ہے۔ عمرہ قضاء کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رمل کا حکم دیا۔ اس سے بھی یہی مقصود تھا۔ فتح مکہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سب صحابہ رضی اللہ عنہم نے کافروں کے سامنے ایسا ہی پر شکوہ مظاہرہ فرمایا۔