سورة الإسراء - آیت 36

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اس چیز کا پیچھا نہ کرو جس کا آپ کو علم نہیں۔ بے شک کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کے بارے میں سوال ہوگا۔“ (٣٦)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦ ٤] ہر قول اور فعل کی تحقیق ضروری ہے بدظنی سے پرہیز :۔ شریعت کی ایک بہت بڑی اصل یہ ہے کہ ہر شخص سے حسن ظن رکھنا چاہیے تاآنکہ اس کی کوئی بددیانتی یا غلط حرکت کھل کر سامنے نہ آجائے۔ اسی مضمون کو ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ (۱۲:۴۹) (یعنی بسا اوقات محض گمان سے بات کہہ دینا گناہ ہوتا ہے) اور صحیح حدیث میں ہے کہ ”کفی بالمرء کذبا ان یحدث بماسمع“ (یعنی کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ جو کچھ سنے اسے تحقیق کیے بغیر آگے بیان کردے) (مسلم) لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ بلاتحقیق کوئی بات نہ کرے۔ نہ ہی بلاوجہ کسی سے بدظنی رکھے جب تک پوری تحقیق نہ کرلے۔ بلاسوچے سمجھے کسی پر نہ الزام لگائے اور نہ تہمت تراشی کرے۔ نہ کوئی افواہ پھیلائے نہ کسی سے بغض و عداوت رکھے۔ اسی طرح عدالت کے لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک مجرم کا جرم ثابت نہ ہو اسے کسی قسم کی کوئی سزا نہ دی جائے۔ پھر یہ تحقیق کا سلسلہ انھیں باتوں میں منحصر نہیں بلکہ وہ رسم و رواج بھی اسی ذیل میں آتی ہیں جو آباء واجداد سے چلی آرہی ہیں ان کے متعلق یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ ان کی اصل شریعت میں موجود بھی ہے یا نہیں۔ آنکھ اور کان کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ ہمیں بیشتر معلومات انھیں ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں اور دل کا کام ان میں غور و فکر کرکے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا ہے۔ گویا ایسے بدظنی رکھنے والوں، بے بنیاد افواہیں پھیلانے والوں اور تحقیق کیے بغیر ہی کسی بات کو قبول کرلینے والوں کے اعضاء سے بھی باز پرس ہوگی۔