انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا
” دیکھیے ہم نے ان کو ایک دوسرے پر کس طرح فضیلت دی ہے اور یقیناً آخرت اعلیٰ ہونے کے لحاظ سے اس سے بڑی اور فضیلت کے لحاظ سے بہت ہی بڑھ کر ہے۔“ (٢١)
[٢١] سیرت وکردار کی فضیلت ہی اصل فضیلت ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی :۔ یہ فضیلت مال و دولت کے لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے اور سیرت و کردار کے لحاظ سے بھی مال و دولت کے لحاظ سے جو فضیلت ملتی ہے اس کی قدر و قیمت اگر کچھ ہوسکتی ہے تو دنیا کے طلب گاروں کی نظروں میں ہی ہوسکتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات ان کی نظروں میں بھی نہیں ہوتی۔ لیکن سیرت و کردار کے لحاظ سے جو فضیلت ملتی ہے وہی سچی اور لازوال فضیلت اور عزت ہوتی ہے اور یہ فضیلت صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو آخرت کے طلبگار ہوں، اللہ سے ڈرنے والے ہوں اس کے فرمانبردار ہوں۔ کسی کو دھوکا فریب نہ دیتے ہوں، ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھتے ہوں۔ ایسے لوگوں کی فضیلت کی قدر و قیمت آخرت کے طلب گاروں میں ہی نہیں دنیا کے طلب گاروں کی نگاہوں میں بھی ہوتی ہے۔ پھر آخرت میں جو ان آخرت کے طلب گاروں کو فضیلت اور درجات عطا ہوں گے وہ دنیا کے مقابلہ میں بدرجہا زیادہ اور بہتر ہوں گے اور صحیحین میں ہے کہ جنت کے ہر درجہ میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان میں، نچلے درجہ والے اوپر کے درجہ والوں کو یوں دیکھیں گے جیسے تم رات کو آسمان کے تاروں کو دیکھتے ہو۔ (بخاری، کتاب الرقاق۔ باب صفۃ الجنۃ والنار)