سورة الإسراء - آیت 1

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” پاک ہے وہ ذات جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔“ ( ١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] واقعہ معراج کے جسمانی ہونے کے دلائل :۔ یہ واقعہ ہجرت نبوی سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کے دو حصے ہیں۔ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو ''اسراء'' کہا جاتا ہے اور قرآن میں صرف واقعہ اسراء کا ہی ذکر ہے۔ دوسرا حصہ مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی سیاحت اور واپسی ہے اسے ''معراج'' کہا جاتا ہے اور واقعہ معراج بہت سی احادیث میں مذکور ہے حتیٰ کہ واقعہ کے راوی صحابہ کی تعداد پچیس سے زائد ہی ہے کم نہیں۔ جمہور امت کا قول یہ ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا۔ محض روحانی (جیسے خواب میں ہوتا ہے) یا کشفی قسم کا نہ تھا۔ تاہم بعض لوگ اسے روحانی بھی سمجھتے ہیں اور منکرین حدیث تو واقعہ معراج کا انکار ہی کردیتے ہیں اور واقعہ اسراء چونکہ قرآن میں مذکور ہے۔ اس لیے اس کی غلط سلط تاویل کرلیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ ایک جسمانی سفر تھا اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ واقعہ کا آغاز ﴿سُبْحَانَ الَّذِی﴾ جیسے پرزور الفاظ سے کیا جارہا ہے اور یہ لفظ عموماً حیرت و استعجاب کے مقام پر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نمایاں اظہار کے لیے آتا ہے۔ اگر یہ واقعہ محض ایک خواب یا کشف ہی ہوتا تو ابتدا میں یہ الفاظ لانے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ ٢۔ عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اطلاق نہ صرف جسم پر ہوتا ہے اور نہ روح پر۔ ٣۔ اگر واقعہ کے بعد کافروں کا تکرار ثابت ہوجائے تو وہ خرق عادت واقعہ یا معجزہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے : ﴿ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴾ (۳:۵۴)”اور یہ (کافر) جب کوئی نشانی یا معجزہ دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے چلا آتا‘‘ اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ سنایا تو کفار نے اس کا خوب مضحکہ اڑایا کہ مکہ سے بیت المقدس کا ٤٠ دن کا سفر ہے اور یہ آمدورفت کا ٨٠ دن کا سفر راتوں رات کیسے ممکن ہے۔ اور اس بات کو (نعوذ باللہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیوانگی پر محمول کیا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ بیت المقدس کا سفر کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے کچھ سوالات پوچھنا شروع کردیئے۔ اس وقت آپ حطیم میں کھڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے درمیان سے سب پردے ہٹادیئے تو آپ مسجد اقصیٰ کو سامنے دیکھ کر کافروں کے سوالوں کے جواب دیتے گئے جیسا کہ جابررضی اللہ عنہ بن عبداللہ انصاری کی حدیث سے واضح ہے جو آگے مذکور ہے۔ اور جن لوگوں نے اسے خواب کا واقعہ سمجھا ان کی دلیل اسی سورۃ کی آیت نمبر ٦٠ کے درج ذیل الفاظ ہیں : ﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ ﴾ (۴۰:۱۷)’’اور یہ (واقعہ) جو ہم نے تمہیں دکھایا تو یہ محض لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا“ روحانی سفرسمجھنے والوں کی تردید :۔ اس آیت میں لفظ رء یا چونکہ خواب کے لیے بھی آتا ہے اس لیے ان لوگوں کو روحانی سفر کا اشتباہ ہوا اس مسلک کی کمزوری کی تین وجوہ ہیں۔ ١۔ لغوی لحاظ سے رء یا کا اطلاق ہر ایسے واقعہ پر ہوسکتا ہے جو آنکھ سے دیکھا گیا ہو خواہ یہ دیکھنا بیداری کی حالت میں ہو یا نیند کی حالت میں۔ ٢۔ اگر یہ واقعہ خواب ہی ہوتا تو اس میں لوگوں کے لیے کوئی آزمائش نہیں۔ ایسا خواب ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ ٣۔ یہ مسلک جمہور امت کے مقابلہ میں شاذ ہے۔ منکرین حدیث کی تاویلات اور ان کا رد :۔ اور منکرین حدیث آیت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اسراء سے مراد آپ کا واقعہ ہجرت ہے جس کا آغاز رات کو ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ سے مراد دور کی مسجد یعنی ''مسجد نبوی'' ہے۔ یہ تاویل کئی لحاظ سے غلط ہے مثلاً ١۔ بخاری کی صحیح روایت کے مطابق ہجرت کے سفر کا آغاز سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر سے ہوا تھا جبکہ اس واقعہ کا آغاز مسجد حرام سے ہوا۔ ٢۔ واقعہ ہجرت بخاری کی اس روایت کے مطابق دوپہر کی کڑکڑاتی دھوپ کے وقت ہوا تھا جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں مگر معراج کا آغاز رات کو ہوا۔ ٣۔ واقعہ ہجرت ایک رات یا راتوں رات نہیں ہوا تھا بلکہ اس سفر میں پندرہ دن اور پندرہ راتیں لگ گئے تھے جبکہ معراج کا واقعہ ایک ہی رات میں ہوا تھا۔ ٤۔ مسجد اقصیٰ کے عرفی مفہوم کو چھوڑ کر اس کے لغوی معنیٰ دور کی مسجد مراد لینا خلاف دستور فلہٰذا باطل ہے۔ ٥۔ مسجد نبوی کی تو تعمیر ہی بہت بعد ہوئی پھر یہ آپ کے سفر کی آخری منزل کیسے بن سکتی ہے۔ اور واقعہ ءمعراج سے اس بنا پر انکار کیا جاتا ہے کہ اس میں اللہ کے لیے سمت مقرر ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ بحث دراصل استواء علی العرش کی بحث ہے اور طویل ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں (تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت) اب ہم اسراء اور معراج کے متعلق چند احادیث درج کرتے ہیں تاکہ اس واقعہ کی تفاصیل سامنے آجائیں۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس رات مجھے بیت المقدس لے جایا گیا تو میرے سامنے دو پیالے لائے گئے ایک دودھ کا اور دوسرا شراب کا تھا۔ میں نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ لے لیا۔ اس وقت جبرئیل نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو فطری راستہ (یعنی اسلام) کی رہنمائی کی آپ اگر شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔‘‘ ٢۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معراج کی رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس براق لایا گیا جسے لگام دیا گیا اور اس پر کاٹھی ڈالی گئی تھی۔ اس نے شوخی کی تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شوخی کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ کے ہاں ان سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں جو تم پر سوار ہو‘‘ راوی کہتا ہے کہ پھر براق کا پسینہ ٹپکنے لگا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر) ٣۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’معراج کی رات جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبریل علیہ السلام نے اپنی انگلی سے اشارہ کرکے ایک پتھر چیر دیا۔ پھر اس سے براق کو باندھ دیا۔‘‘ (ترمذی۔ ایضاً) ٤۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب قریش کے کافروں نے مجھے جھٹلایا تو میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا اور اس کی جو جو نشانیاں وہ مجھ سے پوچھتے۔ میں دیکھ کربتاتا جاتا۔ ‘‘(بخاری۔ کتاب التفسیر) ٥۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا۔ جبریل علیہ السلام اترے۔ انہوں نے میرا سینہ چیرا۔ پھر اس کو زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر سونے کا ایک طشت لائے جو ایمان اور حکمت سے بھرا تھا، اسے میرے سینے میں ڈال دیا گیا۔ پھر سینہ جوڑ دیا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف چڑھے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبریل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا۔ ”دروازہ کھولو“اس نے پوچھا ”کون“ جبریل بولے ”میں ہوں جبریل‘‘ اس نے پوچھا ’’تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟‘‘ جبریل علیہ السلام نے کہا ’’ہاں! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ ہیں“ اس نے پوچھا ”کیا وہ بلائے گئے ہیں؟‘‘ جبریل علیہ السلام نے کہا ”ہاں“ تب داروغہ نے دروازہ کھول دیا۔ تو ہم آسمان دنیا (پہلے آسمان) پر چڑھے۔ وہاں ایک شخص بیٹھا تھا جس کے دائیں طرف بھی ایک مجمع تھا اور بائیں طرف بھی۔ جب وہ دائیں طرف دیکھتا تو ہنس پڑتا اور بائیں طرف دیکھتا تو رو پڑتا۔ اس نے کہا ’’نیک پیغمبر اور نیک بیٹے مرحبا‘‘ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا”: یہ کون لوگ ہیں؟“جبریل علیہ السلام نے کہا ”یہ آدم ہیں،ان کے دائیں طرف اہل جنت ہیں اور بائیں طرف اہل دوزخ ہیں۔ جب یہ دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنس پڑتے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔‘‘ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اور داروغہ سے کہا ”دروازہ کھولو“اس نے بھی وہی کچھ کہا جو پہلے آسمان والے نے کہا تھا۔ پھر آپ نے آسمانوں میں سیدنا آدم علیہ السلام ، ادریس علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا مگر ان کے مقام بیان نہیں کیے۔ البتہ یہ بتایا کہ پہلے آسمان پر سیدنا آدم علیہ السلام کو اور چھٹے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو پایا۔ جب جبریل علیہ السلام کو لے کر ادریس پیغمبر کے پاس سے گزرے تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا ”نیک پیغمبر اور نیک بھائی مرحبا“ میں نے جبریل سے پوچھا ’’یہ کون ہیں؟‘‘ جبریل نے کہا ’’یہ ادریس علیہ السلام ہیں“پھر میں موسیٰ علیہ السلام پر سے گزرا تو انہوں نے وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا۔ ’’یہ کون ہیں؟“جبریل علیہ السلام نے بتایا۔ ’’یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں“ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام پر سے گزرا تو انہوں نے بھی وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتادیا ”یہ عیسیٰ ہیں“پھر میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل سے پوچھا تو انہوں نے بتایا ’’یہ ابراہیم ہیں۔‘‘ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے۔ حتیٰ کہ میں ایک بلند ہموار مقام پر پہنچا۔ وہاں میں قلموں کے چلنے کی آواز سن رہا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا ’’اپنے پروردگار کے پاس واپس جاؤ۔ کیونکہ آپ علیہ السلام کی امت اتنی طاقت نہیں رکھتی۔‘‘ میں لوٹا تو اللہ نے اس کا کچھ حصہ معاف کردیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا۔ ’’پھر اپنے رب کے پاس جاؤ۔ تمہاری امت اتنی طاقت نہیں رکھتی‘‘ میں پھر لوٹا (اور ایسا کئی بار ہوا) یہ پانچ نمازیں درحقیقت پچاس ہی ہیں۔ (دس گناہ اجر کے حساب سے) اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ پھر میں موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی۔ تو میں نے کہا ’’اب مجھے اپنے مالک کے ہاں جاتے ہوئے شرم آتی ہے‘‘ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چلے تو ہم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ اسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا۔ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے۔ پھر مجھے جنت میں لے گئے۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ گنبد تو موتیوں کے ہیں اور اس کی مٹی کستوری کی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب کیف فرضت الصلوۃ) (نیز کتاب بدأ الخلق۔ باب ادریس علیہ السلام) ٦۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (شب معراج میں) نماز فرض کی تو (ہر نماز کی) دو رکعتیں فرض کیں خواہ سفر ہو یا حضر۔ پھر سفر کی نماز تو وہی دو رکعت رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔ (حوالہ ایضاً) ٧۔ مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک دفعہ میں کعبہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں بیٹھا تھا اور تین مردوں میں سے درمیان والے نے میرا سینہ چیر کر اس میں ایمان و حکمت بھر دیا۔ پھر میرے پاس براق لایا گیا جو خچر سے ذرا چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ پھر جبریل علیہ السلام کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچا (مکالمہ وہی ہے جو اوپر والی روایت میں ہے) تو وہاں سیدنا آدم سے ملاقات ہوئی۔ دوسرے پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام سے، تیسرے پر یوسف علیہ السلام سے چوتھے پر ادریس علیہ السلام سے پانچویں پر ہارون علیہ السلام سے چھٹے پر موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں پر ابراہیم علیہ السلام سے۔ پھر مجھے بیت المعمور (فرشتوں کا کعبہ) دکھلایا گیا۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے اس کا حال پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو ان کی پھر باری نہیں آتی پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ دکھایا گیا جس کے بیر ہجر کے مٹکوں کے برابر ہیں اور پتے ایسے جیسے ہاتھی کے کان۔ اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی ہیں۔ دو پوشیدہ اور دو ظاہر۔ پوشیدہ تو جنت میں (سلسبیل اور کوثر) جاتی ہیں اور ظاہری نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا (میں لوگوں کا حال تم سے زیادہ جانتا ہوں اور بنی اسرائیل پر بہت بڑی کوشش کرچکا ہوں لہٰذا تم واپس جاؤ۔ چنانچہ دس نمازوں کی تخفیف ہوئی (حسب روایت سابق) پھر تیس ہوئیں، پھر بیس، پھر دس اور پھر پانچ۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے پھر جانے کو کہا تو میں نے کہا ’’میں انھیں اچھی طرح تسلیم کرچکا ہوں‘‘ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی’’میں نے اپنا فرض پورا کردیا۔ میں نے اپنے بندوں سے تخفیف کی۔ جبکہ ہر نیکی (نماز) کا دس گناہ بدلہ دوں گا‘‘ (بخاری۔ کتاب بدأ الخلق۔ باب ذکر الملائکہ) (بخاری۔ کتاب المناقب، باب المعراج) اس واقعہ کی بیشتر تفصیل تو ان احادیث میں آگئی ہے تاہم کچھ تفصیل بعض دوسری احادیث میں بھی مذکور ہے اور ان تفاصیل کے قابل ذکر عنوانات درج ذیل ہیں : ١۔ بیت المقدس میں تمام سابقہ انبیاء کا جمع ہونا اور جبریل علیہ السلام کا آپ کو امامت کے لیے آگے بڑھانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امامت کرانا جس سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ٢۔ مختلف آسمانوں پر بعض اولوالعزم رسولوں سے آپ کی ملاقات۔ جس سے ان رسولوں کے مدارج کا پتہ چلتا ہے۔ ٣۔ پانچ نمازوں کی فرضیت یا معراج کا تحفہ جس کے بعد پانچ اوقات میں نماز ادا کی جانے لگی۔ ٤۔ سات آسمانوں سے اوپر سدرۃ المنتہیٰ کی سیاحت اور اللہ تعالیٰ کے عجائب کا مشاہدہ، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ اور بعض جرائم کی تمثیلی سزاؤں کا مشاہدہ وغیرہ۔ اس سفر کا آغاز کہاں سے ہوا تھا ؟ اس واقعہ سے متعلق ایک بحث یہ رہ جاتی ہے کہ سفر اسراء کا آغاز کہاں سے ہوا تھا ؟ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق یہ آغاز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ہوا۔ مالک رضی اللہ عنہ بن صعصعہ کی روایت کے مطابق کعبہ سے ہوا۔ اور ایک تیسری روایت کے مطابق ام ہانی رضی اللہ عنہ کے گھر سے ہوا۔ اس سلسلہ میں قول فیصل یہی ہے کہ یہ آغاز مسجد الحرام سے ہوا اور قرآن اسی کی تائید کرتا ہے۔ رہیں دوسری روایات تو ان کی تطبیق کی دو صورتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ مکہ پورے کا پورا مسجد الحرام ہے اور اس پر دلائل بھی مل جاتے ہیں۔ دوسری صورت تطبیق یہ ہے کہ آپ جس گھر میں بھی تھے۔ وہاں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام میں لایا گیا۔ پھر مسجد اقصیٰ کا سفر شروع ہوا۔ [ ٢] یعنی ظاہری لحاظ سے بھی یہ علاقہ زرخیز، سرسبز و شاداب ہے اور روحانی لحاظ سے وہ بہت سے انبیاء کا مرکز تبلیغ، مسکن اور مدفن ہے۔ اس لیے وہاں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات کا نزول ہوتا رہتا ہے اور اس سے مراد شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔ [ ٣] ان الفاظ سے بھی واقعہ معراج کی تائید ہوتی ہے اور اس سے غرض یہ تھی کہ آپ کو مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرْضِ کا مشاہدہ کرا دیا جائے۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت اور دوزخ کے مناظر بھی دکھائے گئے۔ اور تمام اولوالعزم پیغمبروں کو ایسا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو پورے وثوق سے ان غیب کی چیزوں کی طرف دعوت دے سکیں جنہیں وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرچکے ہوتے ہیں۔