سورة النحل - آیت 79

أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” کیا انہوں نے پرندوں کی طرف نہیں دیکھا، آسمان کی فضاء میں مسخرہیں، انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹھہراتا۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان لائے ہیں۔“ (٧٩)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٠] ہوا میں تیرنے پھرنے والے پرندوں کی ساخت :۔ کوئی چیز فضا میں ٹھہر نہیں سکتی وہ ہوا کی لطافت اور زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر آگرتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے پروں اور ان کی دم کی ساخت میں کچھ ایسا توازن قائم کیا ہے کہ نہ زمین کی کشش ثقل انھیں اپنی طرف کھینچتی ہے اور نہ ہوا کی لطافت انھیں نیچے گراتی ہے اور فضا میں بے تکلف تیرتے پھرتے ہیں۔ پھر یہ فن انھیں سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ سب باتیں ان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہیں۔ پرندے جب اڑنے لگتے ہیں تو اپنے پروں کو پھڑ پھڑاتے اور پھیلاتے ہیں۔ پھر جب فضا میں پہنچ جاتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ ہر وقت پروں کو پھیلائے رکھیں۔ وہ انھیں بند بھی کرلیتے ہیں لیکن پھر بھی گرتے نہیں۔ انسان نے پرندوں کی اڑان اور ان کی ساخت میں غور و فکر کرکے ہوائی جہاز تو ایجاد کرلیا۔ مگر جس ہستی نے ایسے طبعی قوانین بنادیئے ہیں جن کی بنا پر پرندے یا ہوائی جہاز فضا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ اس ہستی کی معرفت حاصل کرنے کے لیے انسان نے کوئی کوشش نہ کی۔ [٨١] پرندوں کا توکل اور ان کا نکلنا :۔ آنکھیں، کان اور دل کا ذکر کرنے کے بعد پرندوں کا ذکر کرنے سے اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ ان تینوں چیزوں سے کام لے کر ہر جاندار اپنی معاش کی فکر کرتا ہے۔ انسان بھی اور پرندے بھی۔ ماں کے پیٹ سے کوئی کچھ بھی نہیں لاتا۔ اب انسان کا تو یہ حال ہے کہ وہ کسب معاش اور دنیوی کاروبار کے دھندوں میں ایسا مشغول ہوجاتا ہے کہ یہی چیزیں اسے اللہ پر ایمان لانے اور اس کا فرمانبرداربن کر رہنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ حالانکہ اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ اس لحاظ سے پرندے انسان سے بدرجہا بہتر ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرتے جیسا کرنے کا حق ہے تو تم کو بھی اسی طرح رزق دیا جاتا ہے جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ صبح کو خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں“(ترمذی، ابو اب الزہد۔ باب ماجاء فی الزہادۃ فی الدینا)