الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ
جنہوں نے کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔“ (٩١) ”
[٤٩] قسمیں کھانے والے اور ان پر عذاب کا نزول :۔ اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ اگر مقتسمین کے معنی تقسیم کرنے والے یا بانٹ لینے والے، قرار دیا جائے۔ اس صورت میں یہود و نصاریٰ دونوں ہیں جنہوں نے قرآن کے بعض حصوں کو تو تسلیم کیا اور بعض حصوں کا انکار کردیا اور بعض کے نزدیک ان سے مراد کفار مکہ ہیں۔ جن کا مطالبہ یہ تھا کہ قرآن کی جن آیات میں ہمارے بتوں کی توہین ہوتی ہے وہ نکال دو پھر باقی باتیں ہم مان لیں گے اور بعض کے نزدیک ان سے مراد صرف تفرقہ باز یہود ہیں اور قرآن سے مراد ان کی کتاب اللہ تورات ہے۔ ان لوگوں نے کتاب اللہ کے بعض حصوں کو مان کر، بعض کا انکار کرکے، بعض آیات کو چھپا کر اور بعض کو تحریف لفظی یا معنوی کرکے بیسیوں فرقے بنا ڈالے تھے اور ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے وقتاً فوقتاً اپنی تنبیہات یا عذاب نازل فرمایا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مقتسمین کے معنی باہم قسمیں کھانے والے قرار دیا جائے۔ اس صورت میں اس سے مراد وہ لوگ یا وہ قومیں ہیں جنہوں نے انبیاء کی تکذیب یا بعض دوسری جھوٹی باتوں پر قسمیں کھائی تھیں اور انہوں نے کتب سماویہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے۔ حافظ ابن کثیر اسی معنی کی تائید کرتے ہیں۔ اور اس معنی کی تائید میں کئی آیات پیش کی ہیں۔ مثلاً قوم ثمود نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ ہم رات کو شبخون مار کر سیدنا صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو قتل کر ڈالیں گے (٢٧: ٤٩) یا مثلاً کافروں نے پختہ قسمیں کھا کر کہا کہ جو مر چکا ہے اللہ اسے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا۔ (١٦: ٣٨) یا قریش مکہ نے قسمیں کھا کر کہا تھا کہ ان کی شان و شوکت کو زوال نہیں آئے گا۔ (١٤: ٢٤) یا اعراف والے دوزخیوں کو مخاطب کرکے کہیں گے کہ کیا یہی اہل جنت وہ لوگ نہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھاتے تھے کہ اللہ ان پر کبھی رحمت نہیں کرے گا، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے سب لوگوں پر عذاب آیا اور قیامت کو ان سے سختی سے بازپرس بھی ہوگی۔