كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ
تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی فوت ہونے لگے اور وہ مال چھوڑ جائے تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کر جائے۔ پرہیزگاروں پر یہ لازم ہے
[ ٢٢٦]میت کووصیت کاحکم اور مسائل :۔ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ ترکہ کے وارث صرف بیوی اور اولاد اور بالخصوص اولاد نرینہ ہوا کرتی تھی (جیساکہ آج کل مسلمانوں میں بھی عمومی رواج یہی چل نکلا ہے) ماں باپ اور سب اقارب محروم رہتے ہیں۔ اس آیت کی رو سے مرنے والے پر انصاف کے ساتھ والدین اور اقارب کے لیے وصیت کرنا فرض قرار دیا گیا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آیت میراث میں والدین اور اقارب کے حصے خود ہی مقرر فرما دیئے تو یہ آیت منسوخ ہوگئی اور وصیت صرف ایک تہائی ترکہ یا اس سے بھی کم حصہ کے لیے رہ گئی۔ جو یا تو ان وارثوں کے حق میں کی جا سکتی ہے جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں کیا یا پھر دوسرے رفاہ عامہ کے کاموں کے لیے ایک تہائی مال تک وصیت کرنا ایک حق تھا جو مرنے والے کو دیا گیا تھا۔ مگر آج مسلمان اس سے بھی غافل ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اس حق کو استعمال کریں تو کئی معاشرتی مسائل از خود حل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایسے پوتے پوتیاں یا دوہتے دوہتیوں کی تربیت کا مسئلہ جن کے والدین فوت ہوچکے ہوں یا ایسے محتاج (ذوی الارحام کا جو نہ ذوی الفروض سے ہوں اور نہ عصبات سے)