لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
صرف نیکی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے ہی میں نہیں۔ حقیقتاً نیکی یہ ہے جو اللہ تعالیٰ، قیامت کے دن، فرشتوں، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والے۔ جو لوگ مال کے محبوب ہونے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دیں۔ غلاموں کو آزاد کریں نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کریں، اپنے وعدے پورے کریں۔ تنگدستی اور لڑائی کے وقت صبر کریں۔ یہی لوگ سچے اور یہی پرہیزگار ہیں
[٢٢١]تحویل قبلہ پر جھگڑا کرنے کےبجائے نیکی کےاصل کام :۔ جب یہود مدینہ نے تحویل قبلہ کے مسئلہ کو مسلمانوں کے ساتھ جھگڑے کا ایک مستقل موضوع بنا لیا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرمائی کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنا کوئی ایسی نیکی نہیں ہے جس پر نجات اخروی کا مدار ہو بلکہ نیکی کے اصل اور بڑے بڑے کام تو اور ہیں اور وہ کام ایسے تھے جن میں سے اکثر کی ادائیگی میں یہود قاصر تھے یا کوتاہی کر جاتے تھے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کی انواع بیان فرمائیں۔ یہود جبریل کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ حالانکہ اسی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام نازل فرماتا رہا۔ پھر وہ انجیل اور قرآن پر ایمان نہیں رکھتے تھے، بلکہ اپنی کتاب پر بھی ٹھیک طرح سے ایمان نہیں لاتے تھے اور بے شمار غلط عقائد آخرت کے بارے میں اپنے معتقدات میں شامل کرلیے تھے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے صدقات و خیرات اور اس کے مستحقین کا ذکر فرمایا۔ اس سلسلے میں وہ قاصر یوں تھے کہ وہ سود خور تھے اور سود خور کی فطرت میں بخل اور شقاوت پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ پھر اللہ نے وعدہ پورا کرنے کا ذکر فرمایا۔ جبکہ یہود کی تاریخ عہد شکنیوں سے بھری پڑی ہے اور بزدل ایسے کہ ان کا کوئی قبیلہ بھی مسلمانوں کے ساتھ کھلے میدان میں لڑنے کی جرات نہ کرسکا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے راست باز اور متقی لوگوں کی جو جو صفات بیان فرمائی ہیں یہودیوں کی اکثریت ان سے عاری تھی۔ صرف ایفائے عہد اورصبر کاذکرکیوں ہوا؟اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے سیرت و کردار سے متعلق صرف دو باتوں کا ذکر فرمایا۔ ایک ایفائے عہد کا اور دوسرے صبر کا۔ عہد خواہ ایک شخص کا دوسرے شخص سے ہو یا قوم سے ہو یا ایک قوم کا دوسری قوم سے ہو یا کسی کا اللہ تعالیٰ سے ہو۔ نیز خواہ یہ عبادات سے تعلق رکھتا ہو یا معاملات سے یا مناکحات سے، اس عہد کا پورا کرنا ہر حال میں لازم ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عہد دراصل ایفائے حقوق کا عہد ہوتا ہے جو انسان کی ساری زندگی ہی اپنے احاطہ میں لے لیتا ہے، اور ایفائے عہد کے سلسلہ میں کئی قسم کی مشکلات بھی پیش آ سکتی ہیں۔ لہٰذا ساتھ ہی صبر و ثبات کا حکم فرما دیا اور صبر کے تین مواقع کا بالخصوص ذکر فرمایا۔ ایک باسَاء جس کے معنی تنگی ترشی اور فقر و فاقہ کا دور ہے۔ دوسرے ضراء جس کے معنی جسمانی تکالیف اور بیماری کا دور ہے اور تیسرے حین الباس یعنی جنگ کے دوران بھی اور اس وقت بھی جب جنگ کے حالات پیدا ہوچکے ہوں اور اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی وہ مقامات ہیں جہاں بسا اوقات انسان کے پائے ثبات میں لغزش آ جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بالخصوص ان مواقع کا ذکر فرما دیا۔ پھر جو لوگ ایفائے عہد یا بالفاظ دیگر ایفائے حقوق میں پورے اترتے ہیں اور کسی بھی مشکل سے مشکل وقت میں ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آتی تو ایسے ہی لوگ دراصل راست باز اور متقی کہلائے جانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت نازک حالات میں عہد کو پورا کر کے تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ثبت کردی ہیں۔ ہم یہاں یہ تفصیل بیان نہیں کرسکتے صرف چند واقعات کی طرف اشارہ کافی ہوگا۔ دورنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایفائے عہد کی مثالیں:۔ ۱۔حضرت حذیفہ بن یمان اور ابو حسیل رضی اللہ عنہ (یہ حضرت یمان کی کنیت ہے) دونوں جنگ بدر میں شمولیت کے لیے جا رہے تھے کہ راستہ میں قریش مکہ کے ہتھے چڑھ گئے اور انہوں نے ان سے عہد لے کر چھوڑا کہ وہ غزوہ بدر میں حصہ نہیں لیں گے۔ چنانچہ یہ دونوں صحابی قریش سے چھٹکارا حاصل کر کے میدان بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو واپس چلے جانے کا حکم دیا اور فرمایا تم اپنا عہد پورا کرو، اللہ ہماری مدد کرے گا۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الوفا بالعہد) ٢۔ صلح حدیبیہ کے دوران ابو جندل پابہ زنجیر قریش مکہ کی قید سے فرار ہو کر مسلمانوں کے پاس پہنچ گئے ابو جندل نے اپنے زخم دکھلا دکھلا کر اور اپنا دکھڑا سنا کر التجا کی کہ اب اسے کافروں کے حوالہ نہ کیا جائے۔ اس وقت تمام مسلمانوں کے جذبات یہ تھے کہ خواہ کچھ بھی ہو ابو جندل کو اب کافروں کے حوالہ نہ کیا جائے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ایفائے عہد کی خاطر ابو جندل کو کافروں کے سفیر سہیل بن عمرو (جو ابو جندل کا باپ تھا) کے حوالہ کیا۔ ابو جندل کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کوئی اور راہ نکال دے گا۔ (بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اھل الحرب) ٣۔ عمرہ قضاء کے دوران قریش مکہ نے یہ گوارا نہ کیا کہ مسلمان ان کی آنکھوں کے سامنے آزادی سے عمرہ کے مناسک ادا کریں۔ چنانچہ تین دن کے لیے شہر کو خالی کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے اگر کوئی دنیا دار جرنیل ہوتا تو بڑی آسانی سے مکہ پر قبضہ کرسکتا تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ خیال تک نہ آیا کہ اس سنہری موقع سے یہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کو پورا کیا اور تین دن کے بعد مکہ سے واپسی کا سفر اختیار کرلیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں نے جس طرح اس قسم کے عہد کو نبھایا وہ واقعات بھی بہت ہیں اور کتب تاریخ و سیر کی آج بھی زینت بنے ہوئے ہیں۔ [ ٢٢١] (علیٰ حبہ) میں ''ہ'' کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہو تو اس کا وہی مفہوم ہے جو ترجمہ سے واضح ہے اور اس ضمیر کا مرجع مال قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ اگر مال کی محبت کے باوجود اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ کسی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، یا اپنی احتیاج کو روک کر خرچ کرنا، یا قحط اور گرانی کے ایام میں خرچ کرنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ اس کا محرک قوی جذبہ ہو اور یہ جذبہ اللہ کی محبت اور اس کی فرمانبرداری کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا بالفعل (علیٰ حبہ) میں بیک وقت دونوں مفہوم شامل ہوجاتے ہیں۔